سورة 101 النصر
باب نمبر 110 ” مدد/نصر” (سورة النصر )
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
(سورة النصر بمعہ ترجمہ)
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ﴿۱﴾
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے ۔
و رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا﴿۲﴾
اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے ۔
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ ؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا﴿۳﴾
تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
مدینہ میں نازل ہونے والی تین آیات پر مبنی سورۃ النصر جس کے معنی مدد کے ہیں۔ اگر ہم اس سورت کو متعلقہ آیات کے روابط کو توڑے بغیر پڑھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی شخص بھی گنا ہوں سے پاک نہیں۔ اس معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو نبی محمدؐ کی زندگی کا تجربہ ہمارے لیئے مثالی ہے ۔ جو کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے سے جان لینا چاہیئے کہ خدا تعالٰی صرف اسی صورت اسکی توبہ قبول کر گا اگر وہ اپنی غلطیوں یا برے کاموں سے پلٹ جائے، اپنی اصلاح کرے اور اپنی غلطی کے باعث ہونے والی تکالیف کا ازالہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے۔
رسول محمد کے کردار کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید انھیں ایک انتہائی معزز اور قابل احترام ہستی کے طور پر بیان کرتا ہے۔ (دیکھئے سورۃ القلم 4 : 68) یہ اور ان کی دوسری خوبیوں کی بناء پر خدا تعالٰی نے انھیں اہل مکہ میں سے اپنے پیغمبر کے طور پر چنا۔ (سورۃالجمعہ 2 : 62) ابتداء میں نبی محمدؐ لوگوں تک جو الفاظ پہنچاتے ، جو کہ بلاشبہ خدا تعالیٰ کے الفاظ تھے ، لوگوں (اہل مکہ کو الجھن میں ڈال دیتے (دیکھٔے سورة النجم )۔
مکہ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ خدا تعالٰی نے اسے ام القر’ی یعنی شہروں کی ماں / مرکزی شہر کا درجہ دیا ہے۔ (دیکھئے سورۃ الانعام 92,10: 6(۔ آخر کار اہل مکہ اس بات کو سمجھ گئے کہ وہ (نبی محمدؐ) خدا تعالی کے پغمبر ہیں۔ ( دیکھئے یٰس 7 : 36) یہ جان لینے کے باوجود بھی وہ ان کے مخالف رہے اور کیونکہ وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ کہیں وہ اپنی معززیت اور اپنے الفاظ کی تاثیر خدا تعالٰی کے الفاظ کے مقابلے میں کھو نہ دیں۔ (دیکھٔے سورۃ القصص28:57 )
ترجمہ: یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے۔ ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے بھیجے اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردو بدل نہ پائیں گے۔ (سورۃ الاسراء 77-17:76)
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آیت، ا ظہار سنت (سنت الله ) پر مشتمل ہوتی ہے ۔ سنت، قوانین کا ایسا مجموعہ ہے جو خدا تعالٰی نے ان معاشروں کے بابت ترتیب دیا ہے جہاں اس نے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔
یہ مکمل جامعیت کے ساتھ کام کرتا ہے۔ معاشروں کے حوالے سے خدا تعالی کے قوانیں ان مشرکین مکہ پر بھی لاگو ہوتے ہیں جنہوں نے پیغمبر محمدؐ کو ان کے اپنے ہی ملک سے نکال دیا. درج ذیل آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مومنين مکہ کو فتح کرلیں گے اورخدا کا منصوبہ اپنے مقررہ وقت پر پورا ہوکر رہے گا۔
ترجمہ: الم۔ رومی مغلوب ہوگئے ہیں۔ نزدیک کی زمین پر اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند سال میں ہی ، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالٰی ہی کا ہے ۔ اس روز مسلمان شادمان ہوں گے۔ اللہ کی مدد سے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ تعالٰی اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (سورة الروم 6-1 : 30)
اب ہم اس آیت کا حوالہ دیں گے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مشرکین مکہ اچھے سے اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ انھوں نے نبی محمدؐ کو ان کے آبائی وطن سے نکال کر غلطی کی ۔ ارشاد ربانی ہے۔
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہو چکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں جس سے انکے سر اوپرکو الٹ گئے ہیں۔ اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا سو وہ نہیں دیکھ سکتے۔ اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں دونوں برابر ہیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بے دیکھے ڈرے سو آپ اس کو مغفرت اور با وقار اجر کی خوش خبریاں سنا دیجئے۔ (سورۃ یٰس 11-7: 36)
مزید براں، مدینہ میں نازل ہونے والی ایک آیت میں خدا تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے پیغمبر محمدؐ کی جانب جارحانہ سلوک کی نشاندہی کی ہے ۔ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ترجمہ: اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔ (سورۃ الانفال 30 : 8)
مسلمانوں کی جانب مشرکین مکہ کے رويے نے پیغمبر محمدؐ اور ان کے پیروکاروں کو ہجرت مدینہ پر مجبور کیا ۔ مسلمانوں کے چند سال انتظار کے بعد پار سیوں اور رومیوں کے درمیان آغاز جنگ کی خبر ملی۔
جیسا کہ ہمیں سورہ قریش سے پتا چلتا ہے کہ اہل مکہ سال میں دو مرتبہ تجارتی قافلے ترتیب دیتے تھے۔ سردیوں میں يمن اور ایتھوپیا کی جانب اور گرمیوں میں فلسطین، شام، مصر اور حجاز کی طرف- جنگ کی خبر اس وقت پہنچی جب ابو سفیان کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ جو کہ مکہ کے لوگوں کیلئے بہت اہم تھا شام سے مکہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ یہ قافلہ ان پر خدا تعالٰی مہربانی ہے اور قافلے پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا اس نقصان کے بدلے کے طور پر جو کہ انھیں مجبوراً اپنے گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں ہوا۔ چنانچہ وہ مقام بدر کے کنوؤں پر جا پہنچے جہاں پر قافلہ کا گزر اورقیام متوقع تھا۔ مگر جیسے ہی وہ مقام بدر پر پہنچے کو مسلمانوں نے اہل مکہ کا ایک لشکر دیکھا۔ خدا تعالٰی اس انداز سے بیان کرتے ہیں۔
ترجمہ: جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے تھا اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو دلیل پر ( یعنی یقین جان کر ) ہلاک ہو اور جو زندہ رہے ۔ وہ بھی دلیل پر ( حق پہچان کر ) زندہ رہے بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ (سورة الانفال8:42 )
مقام بدر مکہ کے جنوب مغربی جانب 160 کلومیٹر اور بحیرہ احمر کے ساحل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ علاقہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی صورت تھا جو کہ مکہ، مدینہ اور شام کے راستوں کو ملاتا تھا۔ چنانچہ، قافلے کو حملے سے بچانے کیلئے ابو سفیان نے بدر کے راستے سے دور اسکا رخ بحیرہ احمر کے ساحل کی جانب موڑ دیا ۔ تاجر شاذو نادر ہی اس راستے کا استعمال کرتے تھے۔ اسی لیے جب قافلہ مسلمانوں کے قریب پہنچا تو دو فوجوں کا بدر کے ایک ہی حصے پر موجود ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ دونوں فوجیں قافلے کی تلاش میں راونہ کی گئی تھیں۔ ایک فوج ابو سفیان کے قافلے سے جا ملنے اور انھیں ممکنہ حملے سے بچانے کیلئے نکل پڑی جبکہ دوسری قافلے کو پکڑنے کیلئے۔
خدا تعالٰی نے مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ تجارتی قافلے کو ضبط نہ کریں بلکہ مکہ کو طرح فتح کرنے کیلئے لڑیں۔ خدا تعالٰی نے پہلے سے ہی اس بات کا اعلان کر دیا تھا۔
ترجمہ: اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہونگے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ اور اگر تم میں ایک سو ہونگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے ، اس واسطے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں۔ (سورة الانفال 65 :8)
اس آیت کے ذریعے مومنین کو اس لشکر سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا جو کہ تعداد میں ان سے دس گنا زیادہ تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ ان میں ہے۔ کچھ مسلمان لڑائی تو چھوڑ، قافلے پر قبضہ کرنے سے بھی خوفزدہ تھے یہ درج ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔
ترجمہ: اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (سورۃ الانفال 8:58)
جب مسلمانوں نے خدا تعالٰی کے یہ الفاظ سنے کہ انھیں مشرکین کے لشکر سے جنگ کرنی چاہیئے تو ان میں سے بہت سوں کے دلوں میں خوف بيٹھ گیا۔ وہ جنگ کیلئے نہیں نکلے تھے اور ان میں سے ایک گروہ جنگ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ حتیٰ کہ غیر مسلح کو فوج کے خلاف بھی نہیں۔ چنانچہ خدا تعالٰی نے ان کے کام کو آسان کرنے کا فیصلہ کیا اور مذکورہ آیت نازل کرکے انھیں پر سکون کیا۔
ترجمہ:اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہونگے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورة الانفال 66: 8)
اسطرح خدا تعالٰی نے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ اپنے سے دس گنا زيادہ لشکر کے بجائے دو گنا زیادہ لشکر سے جنگ کریں۔ پس، ان کے بوجھ کو ہلکا کر دیا۔ لیکن حقیقت میں مشرکین مکہ کی تعداد مسلمانوں کے مقابل دو گنا سے بھی زیادہ تھی لہذا خدا تعالٰی نے پیغمبر محمدؐ کو ایک خواب میں مشرکین کی تعداد کو جتنے وہ حقیقت میں تھے اس سے کم کر کے دکھایا
ترجمہ:جب کہ اللہ تعالٰی نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی اگر ان کی زیادتی دکھاتا تو تم بزدل ہو جاتے اور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالٰی نے بچا لیا وہ دلوں کے بھیدوں سے خوب آگاہ ہے۔ (سورة الانفال 43:8)
سورة الانفال کی آیت نمبر 44 کے مطابق خدا تعالٰی نے مسلمانوں کو مشرکین مکہ کی حقیقی تعداد سے کم دکھایا۔ پس اس (خدا تعالٰی) کے یہ الفاظ یعنی ” مکہ کی فتح ” جنگ بدر میں مسلمانوں کو مشرکین سے فتحياب ہونے کے نتیجے میں ملی ۔
درج ذیل آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لشکر کی کتنی تعداد مسلمانوں کو دکھائی گئی تھی۔
ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں ، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دیکھتے تھے اور اللہ تعالٰی جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ (سورة آل عمران 13: 3)
خدا تعالٰی نے مکی لشکر کو مسلمانوں سے دوگنی تعداد میں دکھایا کیونکہ اس نے مسلمانوں پر اس لشکر سے جنگ کی ذمہ داری عائد کی تھی جو کہ تعداد میں ان سے دوگنا زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ خدا تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد اور انکے قدم جمائے رکھنے کیلئے دشمنوں کو دکھائی دینے والے ایک ہزار فرشتے نازل کئے جس کے باعث مشرکین مکہ کو ایک اور بڑا دھچکا لگا۔
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالٰی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے۔ اور اللہ تعالٰی نے یہ امداد محض اس لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہو جائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے۔ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لئے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کردے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے۔ اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔ (سورة الانفال 12-9:8 )
بیشک خدا تعالٰی نے فرشتوں کو کفار کو مارنے کیلئے نہیں بلکہ مومنین کو خوشخبری دینے اور انھیں مطمئن کرنے کے کیلئے بھیجا تھا ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم تھی۔ تین ہزار فرشتوں نے دشمن کی گردنیں ماریں اور انکا پور پور توڑ دیا کہ کوئی بھی مشرک زندہ نہ بچ سکے ۔ اس ساری مدد کے بعد بھی مومنین کے دلوں سے ڈر مکمل طور پر ختم نہ ہوا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کے لشکر کو مزید تین ہزار فرشتوں سے مضبوط کیا۔ ترجمہ: کیوں نہیں ، بلکہ اگر تم صبر وپرہیزگاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا جو نشاندار ہونگے۔ اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمینانِ قلب کے لئے ہے ، ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔ ( اس امدادِ الٰہی کا مقصد یہ تھا کہ اللہ ) کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر ڈالے اور ( سارے کے سارے ) نامُراد ہو کر واپس چلے جائیں۔ (سورۃ آل عمران 127-125 : 3 )
اس مدد پر غور کرنا جو کہ خدا تعالٰی کی جانب سے میدان جنگ مسلمانوں کومشرکین کے اس لشکر سے لڑائی کیلئے حاصل ہوئی جنکا سردار ابو جہل تھا۔ اس روز مسلمانوں نے خود ابو جہل اور ستر دیگر کفار کو مار کر لشکر مکہ کو ہرایا۔ مسلمانوں کی جماعت میں سے بھی چودہ شہید ہوئے۔
لیکن مسلمانوں نے اس جنگ کے دوران مکمل ثابت قدمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ درج ذیل آیت کی نافرمانی کی جو کہ انھیں اس بات کا حکم دیتی تھی کہ اس وقت تک لڑتے رہیں دشمن منتشر نہ ہو جائے اور وہ پیچھے ہٹ گئے ۔
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ ، تو ان سے پشت مت پھیرنا ۔ اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا جو ( اپنی ) جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستشنٰی ہے باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔ (سورة الأنفال 16-15 : 8)
جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے ان کے لئے سخت تنبيہ ہے جو بغیر کسی معقول وجہ کے میدان جنگ سے بھاگ نکلیں۔ کیونکہ مومنین کیلئے ضروری ہے کہ اس وقت تک لڑیں جب تک کہ دشمن مکمل طور پر منتشر نہ ہو جائے ۔
ترجمہ: پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آجائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں ہو سکتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کریں۔ (سورۃ الانفال57 : 8 )
جنگ کے دور ان مسلمانوں نے صرف پیچھے ہٹنے کی ہی غلطی نہیں کی بلکہ ان میں سے کچھ بغیر اجازت میدان جنگ کو چھوڑ کر جانے لگے ، کچھ نے مال غنیمت پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور کچھ مشرکین کے شکست تسلیم کئے بغیر ہی انھیں قیدی بنانے لگے۔ یہ ہمیں مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔
ترجمہ: نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خون ریزی کی جنگ نہ ہو جائے ۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔ (سورة الانفال 67:8 )
خدا تعالٰی کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا ذمہ دار نہیں بناتا سورة البقرة (2:286) لیکن وہ پیغمبر محمدؐ ، انکے ساتھیوں اور مومنین کو دشمن کے شکست تسلیم کرنے سے قبل ہی انھیں قیدی بنانے کے لئے ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شکست خوردہ دشمن کا حصول مومنین کے اختیار میں ہے۔ اس بات کا ثبوت سورۃ محمد کی آیت نمبر 04 بھی ہے جو کہ اس بات کا حکم دیتی ہے کہ دشمن کو قید کرنے سے پہلے اسے مکمل طور پر شکست دینا ضروری ہے ۔ اور یہ آیت جنگ سے قبل نازل ہوئی تھی ۔
ترجمہ: تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو ۔ جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو ( پھر اختیار ہے ) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر تا وقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیا ر رکھ دے ۔ یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ( خود ) ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن ( اس کا منشا یہ ہے ) کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعہ سے لے لے جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (سورة محمد 4 : 47)
اس آیت کو نظر انداز کرکے پیغمبر محمدؐ اور جنگ بدر میں حصہ لینے والے مومنین سے دو گناہ سرزد ہوئے۔ البتہ خدا : تعالٰی نے اپنے اس وعدے کو برقرار رکھا جو کہ اس نے سورۃ الروم کی آیات ایک تا چھ (الروم -6-1 : 30 ) میں کیا تھا اور مومنین کو فتح سے ہمکنار کیا۔
مندرجہ ذیل آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے۔
ترجمہ: اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے۔ (سورۃ الانفال69 – 68:8 )
پس اس معاملے سے متعلق قرآنی آیات کی روشنی میں ہم نے پیغمبر محمدؐ کی قیادت میں مسلمان لشکر کے افعال کا جائزہ لیا ۔ اور يہ تمام آیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مسلمانوں سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی وہ یہ کہ ان کے اعمال ان آیات کے خلاف تھے۔ چنانچہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور در حقیقت وہ سزا سے صرف اسی لیے محفوظ رہے کیونکہ خدا تعالٰی پہلے ہی سورہ الروم کی پہلی چھ آیات میں ان سے عہدہ کر چکا تھا ۔ پس مسلمان يہ جنگ جیت گئ۔
پھر غزوہ احد اور غزوہ خندق ہوئی جس کے بعد پیمبر محمدؐ نے اہل مکہ سے حديبيہ” کا عہد نامہ کیا۔ مذکورہ آیات اسی سے متعلق نازل ہوئیں ۔
ترجمہ: بیشک ( اے نبی ) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔ تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ تعالٰی معاف فرمائے اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے اور تجھے سیدھی راہ چلائے۔ (الفتح 2-1 : 48 )
آیئے ہم ان آیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلا گناہ جو پیغمبر محمدؐ سے جنگ بدر کے دور ان دشمنوں سے جنگ رکھنے کا حکم نہ دینے کے باعث سرزد ہوا ( دیکھئے سورۃ الانفال 16-15 : 8 ) اور اگلا گناہ یہ سرزد ہوا کہ انھوں نے جنگ کے مکمل طور پر ختم ہونے سے قبل ہی انھیں قید میں لینے کی اجازت
دے دی (سورۃ الانفال 68-67 : 8 ، سورہ محمد 4 : 47 )۔
چنانچہ جنگ بدر کے دوران مکہ فتح نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ ان دونوں آیات میں لفظ گناہ کا ترجمہ ” ذنب” کے لفظ پر کیا گیا ہے جسکا ترجمہ زیادہ تر "غلطی” یا "کوتاہی” کے طور پر کیا جاتا ہے۔ البتہ بالکل یہی لفظ قوم عاد، ثمود، قارون ، فرعون اور ہامان سے سر زد ہونے والے گنا ہوں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔(دیکھیئے العنکبوت 29:40)
پیغمبر محمدؐقبل اس کے کہ خدا تعالٰی سے ان دونوں غلطیوں کی معافی مانگتے ، مکہ کو فتح کر چکے تھے۔
سورۃالنصر کے موضوعات جو کہ فتح اور توبہ کے احکامات پر ہیں۔
ان واقعات کے مجموعے پر مبنی ہیں۔ ان آیات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص حتی کہ انبيا ٔ بھی غلطیوں یا خطاؤں سے محفوظ نہیں ہیں۔ جو کوئی بھی بھی خدا تعالی کی حکم عدولی کرتا ہے اسے چاہیے کہ پہلی فرصت میں اپنی غلطی کا ازالہ کرے اور پھر خلوص نیت سے مغفرت طلب کرے۔۔