سورۃُ الفاتحہ
مکہ میں نازل ہوئی۔ 7 آیات ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم ﴿1﴾
1 ۔ اللہ کے نام سے جس کی بھلائی لامتناہی اور بے پناہ فضل ہے ۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿2﴾
2 ۔ ہر چیز کو کامل بنانا اللہ کے لیے مخصوص ہے ۔ وہ تمام مخلوقات کا رب /مالک ہے ۔
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿3﴾
3 ۔ جس کی بھلائی لامتناہی اور جس کی سخاوت بہت زیادہ ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الحمدللہ / سورۃ الفاتحہ یعنی سات ، عظیم الشان آیات کا ایک سیٹ ہے جو مجھے دی گئی ہیں۔ ‘‘ (بخاری، تفسیر، 1؛ نسائی، افتتاح، 26) ایک آیت اس طرح ہے: "ہم نے تمہیں اس میسانی (ایک دوسرے سے متعلق آیات ) میں سے سات آیات کا یہ شاندار مجموعہ عطا کیا۔‘‘ (الحجر15 /87) ۔ میسانی (مثَانِي) کا مطلب ہے دو میں سے ۔ قرآن پاک، محکم، یعنی مختصر اور جامع دفعات والی آیات اور ان سے ملتی جلتی اور انکی وضا حت کرنے وا لی مشابہ آیات پر مشتمل ہے۔ ان کے درمیان باہمی تعلق موجودہے۔ دو مماثل آیات کے گروہ کو "میسانی” کہا جاتا ہے۔ سورۃ فاتحہ کا میسانی ہونا قرآن کی ابتدا میں واقع اورسات آیات پر مشتمل ہونا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی ہر آیت دیگر آیات کے مشابہ ہے۔ یہ مشابہت سورۃ فاتحہ کو قرآن کا خلاصہ بناتا ہے۔ اسی لیے فاتحہ کو قرآن عظیم / اعلیٰ مفہوم کا مجموعہ کہا گیا ہے۔
’’رحمٰن ‘‘ اور ’’رحیم ‘‘ کے الفاظ رحمت (رحمۃ) سے نکلے ہیں۔ رحمت کا مطلب ہے نیکی اور مہربانی جس کے لیے مہربانی کی ضرورت ہے۔
جب اللہ کی خصوصیت کے طور پر استعمال کیا جائے تو صرف نیکی اور سخاوت کو سمجھا جاتا ہے (مفردات) ۔ رحمن کا مطلب "جس کی رحمت ہر چیز پر محیط ہے”
چونکہ یہ خصوصیت اللہ کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جا سکتی، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’ بھلائی لامتناہی ‘‘ سے کیا ہے۔ رحیم کا مطلب ہے "بہت رحم کرنے والا”۔
یہ خصوصیت اللہ کے علاوہ کسی اور مخلوق میں بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح رحیم کا لفظ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 9/128میں اللہ کے رسول کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ؛ سورۃ فتح کی آیت نمبر 48/29 میں مومنوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔
"حمد” کا مطلب ہے کسی کی تعریف کرنا جو اس نے کیا ہے۔ "وہ اچھا کھانا پکاتا ہے اور ایک اچھا دوست ہے۔” اس طرح کے الفاظ اس میں شامل ہیں۔ "شکریہ” کا مطلب ہے اس شخص کی تعریف کرنا جو اپنے آپ پر احسان کرتا ہے یا احسان کے ساتھ احسان کا جواب دیتا ہے۔ اللہ وہ واحد ہستی ہے جو ہر کام خوبصورتی سے کرتا ہے۔
اللہ جو کرتا ہے اور انسان جو کرتے ہیں ۔ اس کے درمیان فرق واضع کرنے کے لیے "خوبصورت” کی بجائے "کامل” کا لفظ ہم نے استعمال کیا ہے۔
لفظ رب کے ترکی زبان میں معنی "مالک” کے ہیں۔ گھر کے مالک کے لیے ”رَبُّ الدَّار” گھر کا رب (مفردات)، سرمائے کے مالک کے لیے
ربّ المال سرمائے کا رب کہا جاتا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کے بھیجے ہوئے غلام سے اس طرح کہا: اپنے رب کے پاس واپس جا ؤ اور پوچھو ذرا
ہاتھ کاٹنے والی خواتین کا کیا مسئلہ تھا؟ میرا رب ان کی چالوں کو جانتا ہے۔ (سورۃیوسف 12/50) یہ لفظ رب آیت میں پہلے "بادشاہ جو غلام کا مالک ہے” اور پھر "اللہ” کے معنی میں استعمال ہوا۔
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿4﴾
4۔ جس دن ہر کام کا بدلہ دیا جائے گا ، اس دن کا وہ واحد صاحب ِاختیار ہے ۔
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿5﴾
5 ۔ (اے اللہ!) ہم براہ راست آپ کی بندگی کرتے ہیں۔ اور مدد بھی ہم آپ سے ہی براہ راست مانگتے ہیں ۔
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ {6}
6۔ ہمیں اپنے سیدھے راستے پر قبول فرما ؛
دین، ” کا مطلب ہے رسم، صورت حال؛ کئے گئے کام کا بدل دینا” اور جو جواب دیا گیا ہے اس کا مطلب ہے اطاعت/سر تسلیم خم کرنا کے مفہوم میں آتا ہے۔
’’(es-Sihâh) ‘‘ قرآن میں مذہب سے مراد وہ نظام بھی ہے جسے انسان قبول کرتا ہے اور اس کے تحت زندگی گزارنے کا وعدہ کرتا ہے (آل عمران3/19، کافرون 091/6) اگر یہ دین اللہ کا دین ہے تو جھکنے والا صرف اللہ ہے اور اسی سے اجر کی امید کی جا سکتی ہے۔
"دین کا دن” آخرت کا دن ہے جب دنیا میں کیے گئے اعمال کا بدلہ ملے گا (نور 24/25، صفات 37/19-20، صٓ 38/78 ،الذّٰرِیٰتِ 51/6 12-13، الۡوَاقِعَۃُ 56/56، الۡمَعَارِجِ 70/26، الۡمُدَّثِّرُ 74/46، انفطار 82/9، 15-19)۔
حج 22/56، الۡفُرۡقَانَ 25/26، الۡمُؤۡمِنُوۡنَ 40/16، انفطار 82/17-19
بندگی کرنا /عبادت کرنا ‘خلوص نیت کے ساتھ، احترام کے ساتھ، اپنی مرضی سے اور غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔
بہت سی آیات میں انسانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مہربانی اور مہمان نوازی کا حکم دیا گیا ہے (مائدہ 5/2، بقرہ 2/177، الذّٰرِیٰتِ 51/19، الۡمَعَارِجِ 70/24-25) یہ آیت اللہ سے مانگی جا نے والی چیز وں اور باتوں کے بارے میں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔. لیکن بعض لوگ ایسے لوگوں کودرمیان میں ڈال کر اور ان لوگوں کے ذریعے مدد مانگتے ہیں جنہیں وہ مقدس سمجھتے ہیں۔ یہ انہیں اللہ کے مرتبے تک پہنچا دینا ہے، اس لیے شرک ہے ۔
کوئی بھی جو اس کے اعصاب کے اختتامی سروں سےبھی زیادہ قریب ہونے والے اللہ اور اپنے درمیان کسی کووسیلہ بنا تا ہے، وہ دین سےنکل کر مشرک ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی لوگوں کو نیکی اور تقویٰ/ غلطیوں سے بچنے کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا حکم دیتا ہے۔ (مائدہ 5/2)۔ سورۃ الکہف 18/95۔ آیت میں ذوالقرنین نے لوگوں سے مدد مانگی، واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے. وہ مدد جو صرف اللہ سے مانگی جا سکتی ہے ایسی مدد جو کوئی اور نہیں دے سکتا۔ دعاؤں کی قبولیت، غیر معمولی مدد، جیسے سب کچھ دیکھنا، سننا، سب کچھ جاننا۔ چونکہ یہ کام اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا اس لیے کسی اور سے ان کی توقع رکھنا شرک ہوگا۔ درحقیقت ان کے متعلق بہت سی آیات ہیں۔ اس آیت میں،
"براہ راست تم سےہم مدد چاہتے ہیں۔” جملے کا مفہوم یہ ہے کہ "جب ہم آپ سے کچھ مانگتے ہیں تو ہم کسی چیز یا کسی کو بھی وسیلہ نہیں بناتے۔”.
صراطِ مستقیم کا مطلب ہے "سیدھا راستہ”۔ اس راستے پر چلنا اللہ کی عبادت سے ہی ممکن ہے (آل عمران 3/51، یاسین36/60-61)۔ اللہ کی عبادت صرف اس کی کتاب کو اپنانے سے ہی ممکن ہے (انعام 6/151-153، الزخرف 43/43)۔
اس جملے کا لغوی معنی جس کا ترجمہ کیا گیا ہے ” ہمیں اپنے سیدھے راستے پر قبول فرما ” جس کا لفظی ترجمہ ’’ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما‘‘ کی صورت میں ہے۔
ہدایت یہ ہے کہ نرمی سے رہنمائی کی جائے (مفردات)۔ اللہ کی طرف سے ہدایت چار قسم کی ہوتی ہے:
1. عمومی رہنمائی: یہ وہ ہدایت ہے جو تمام مخلوقات کا احاطہ کرتی ہے، اوریہ اپنے لیے فائدہ مند اور نقصان دہ چیز کی تمیز کرنے کی صلاحیت جو اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو دی ہے۔ (طہٰ 20/50، الاعلیٰ 87/3)۔
2. آزمائش سے گزرنے والے انسانوں اور جنوں کے لیے ہدایت: ا س کا مطلب ہے دعوت، رہنمائی اور انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کرنا۔ اللہ کا کتابیں نازل کرنا اور ڈرانے والے بھیجنا ہے ۔(النساء 4/165، یونس 10/147، البلد 90/10)۔
3. راہ راست پر چلنے والوں کے لیے ہدایت: یہ ہدایت ان لوگوں کے لیے اللہ کی مدد ہے جو اللہ کی کتاب کی پیروی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی کامیابی اور ان کے لیے راستہ کھولتی ہے (عنکبوت 29/69، محمد 47/17)۔
4. آخرت کےلیے ہدایت: دنیا میں اپنی آخری سانس تک راہ راست پر رہنے والوں کیلیے اللہ کا آخرت میں جنت میں داخل کرنا ہے (اعراف 7/43، یونس 10/9، محمد 47/4-6)۔
"اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا”اس دعا کا مطلب ہے، ہم تیرے راستے پر آئے ہیں، قبول فرما، اے اللہ! اپنے راستے پر ہمیں کامیابی کی طرف لے جا۔ اور ہمارے لیے راستہ کھول دے۔ یعنی اس کا ، "ہمیں اپنے سچے راستے پر قبول کر لے” مفہوم دیا گیاہے۔
جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کیں ۔ انبیاء، صالحین، علماء اور نیک لوگ (نساء، 4/69)۔
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ {7}
۔ ان لوگوں کا راستہ جن کو تو نے نعمتوں سےنوازا ہے ; ان لوگوں کے راستے کی طرف جو تیرے غضب کے مستحق نہیں تھے اور نہ گمراہ ہوئے تھے ۔ (آمین)
[*11] آیات الٰہی کو نظر انداز کر کے، اپنےانبیاء کو ناحق قتل کر کے، حسد کی وجہ سے اللہ کی نازل کردہ کتابوں کو نظر انداز کر نے پر اصرارکرتے ہوئے ، اللہ کی مقرر کردہ پابندیوں کو روندھتے ہوئے ، کوئی بندر تو کوئی خنزیر جیسے طرز عمل کو اپناتے ہوئے ، اور اللہ پر بہتان لگاتے ہوئے، بچھڑے (بیل کے بچے ) کا دیوتا اوردرمیانی خدا (خدا کیلئے وسیلہ)ہونے کا دعویٰ کرنے والے باغیوں کے سامنے جھکنے والے ، وہ یہودی سرکش، باغی اور انتہائی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں (بقرہ 2/61، البقرہ 2/90؛ علی عمران 3/112؛
المائدہ 5/60; الاعراف 7/152);
[*12] سازشوں کے ذریعے حق کھانے والے ،جھوٹی گواہی دے کر، درمیانی معبودوں کو اختیار کر کے، اور اللہ کے ساتھ شرک کر کے سیدھے راستے کوترک کرنے والے فاسق ۔ (مائدہ 5/107-108؛ انعام 6/77-78)؛
جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کیں ۔ انبیاء، صالحین، علماء اور نیک لوگ (نساء، 4/69)۔
غصہ عربی غضب کا مترادف ہے۔ متعلقہ آیات کی روشنی میں غصے کے مستحق افراد درج ذیل ہیں: یہودی (بقرہ 2/61،90، آل عمران 3/112، مائدہ 5/60، اعراف 7/152)، و ہ لوگ جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرتے ہیں (نساء 4/93)، حقیقت کے خلاف مزاحمت کرنے والے (اعراف7/71)، میدان جنگ سے بھاگنے والے (انفال 8/16)، ارتداد کرنے والے (نحل 16/106)، زیادتی کرنے والے (طہٰ 20/81)، جو اللہ کے بارے میں غیر منصفانہ بحث کرتے ہیں (شوریٰ 42/16)، وہ عورتیں جو خود تو بد کردار ہوں لیکن اپنا دامن بچانے لیے اپنے شوہر وںپر بہتان لگائیں (نور 24/9)، منافق مرد اور منافق عورتیں، اور مشرک مرد اور مشرک عورتیں (فتح 48/6)۔
متعلقہ آیات کی روشنی میں گمراہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں (مومنون 23/105-106) ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والے (المائدہ 5/12)، اللہ کے راستے سے روکنے والے (النساء 4/167)، دین میں حد سے گزرنے والے (المائدہ 5/77)، جو لوگ گمان کی پیروی کرتے ہیں (انعام 6/116)، وہ جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں (ابراہیم 14/3)، وہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں (نساء 4/116)، فاسق (مائدہ 5/108، انعام 6/77)، جو اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتے ہیں (احقاف 46/5، حج 22/12)، اللہ کو چھوڑ کرجنہوں نے شیطانوں کو اپنا سرپرست بنایا (اعراف 7/30)، ظالم (مریم 19/38)، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے سرکشی کی (احزاب 33/36)، اللہ کے ذکر/کتاب کے بارے میں سخت رویہ دکھانے والے (زمر 39/22)، وہ لوگ جو اللہ کی طرف پکارنے والوں کی پکار کو قبول نہیں کرتے۔
(احقاف 46/32)، قیامت کا انکار کرنے والے (شوریٰ 42/18)، منافقین (بقرہ 2/8-16)، اللہ کی نازل کردہ کتابوں کو چھپانے والے (بقرہ 2/174-175)، کافر (نساء 4/136)، مشرک (نساء 4/116، ابراہیم 14/30)، دنیاوی مال و اسباب اور زینت کے دھوکے میں حق سے دور رہنے والے (یونس 10/88)، اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے والے (یوسف 12/30)، کتاب اللہ سے دور رہنے والے (طہٰ20/52، لقمان 31/6)، ان لوگوں کی پیروی کرنے والے جو اللہ کی کتاب سے دلیل لائے بغیر اللہ کے بارے میں بات کرتے ہیں (حج 22/8-9)، وہ لوگ جو برائی کو دوست بناتے ہیں (فرقان 25/28-29)، وہ جو حق کا انکار کرتے ہیں (کلیم 68/7-8)۔
آمین ، دعا کے بعد کہا جانے والا ایک لفظ ہے جس کے معنی "اے اللہ اسے قبول فرما!” ہیں (لسان العرب) ۔ یہ لفظ قرآن میں نہیں آتا۔ روایت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھاتے ہوئے فاتحہ مکمل کرنے کے بعد آمین کہا اور جماعت نےبھی آمین کہہ دیا ۔ (بخاری، "تفسیر”، 2؛ مسلم، "نماز”، 62، 87)۔