سلیمانیمی فاؤنڈیشن
سلیمانیہ فاؤنڈیشن کے قیام کا مقصد کیا ہے

سلیمانیہ فاؤنڈیشن کے قیام کا مقصد کیا ہے

سلیمانیہ فاؤنڈیشن کے قیام کا مقصد کیا ہے؟
ٰی کے پیغام کو سمجھنا اوراس کے فہم کو
سلیمانیہ فاؤنڈیشن کی حیثیت سے ہمارا بنیادی مقصد ہللا تعال
پھیالنا ہے۔
ہمیں اپنی زندگی کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا۔
صرف اسی صورت میں قرآن کے فرد اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ قرآن کے
صفحات اور غالف کی انتہائی درجے کی تقدیس نصیحت حاصل کرنے میں رکاوٹ بن چکی ہے یہ
واضح طور پر انسانیت کے لیے نا قابل تالفی نقصان اورظلم ہے۔
اگرچہ لوگوں کا ایک قابل ذکر حصہ ایمان النے والوں میں سے ہے، اس کے باوجود وہ طرح طرح
کی شدت پسندی کے بھنور میں پھنس چکے ہیں اور قرآن اوررسولصلى الله عليه وسلم کے انسانوں کو سکھائے ہوئے
طریقوں کی بجائے کچھ اور طریقوں پر بھٹک گئے ہیں۔ اب جبکہ حضرت محمدصلى الله عليه وسلم کو بھی تنبیہ کی
جا رہی ہے کہ وہ مشرک نہ بنیں پھر بھی مسلمانوں کا مشرکین کے انداز میں ہللا کو ماننا اوراس تنبیہ
کو خاطر میں نہ النا بہت عجیب بات ہے۔
‘‘ اور وہ تمہیں ہللا کی آیتوں سے روک نہ دیں بعد اس کے کہ تم پر نازل ہو چکی ہیں، اور اپنے رب
کی طرف بالؤ، اور مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہو۔” )سورة القصص، ۸۷/۲۸(
بالشبہ ان حاالت اور توہمات کو قرآن کی روشنی میں تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا اور اس بات کو یقینی
بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ ہر کوئی ماخذ سے صحیح چیز سیکھے۔‘‘بھال اس لئے کہ تم حد
سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ’’ )سورة الزخرف۵/۴۳،(
قرآن نہ صرف ایک نصیحت ہے جو مومنوں کو دنیا اور آخرت حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا
بلکہ اس میں ایسے اصول اور ہدایات بھی شامل ہیں جو اس دنیا میں بھی انسانوں کی زندگی کو
صحیح شکل میں ڈھالیں گے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں قرآن کی ان تجاویز پر متعلقہ علوم کی
جانب سے غیر جانبدارانہ اور عقلی تحقیق انسانیت کے لیے انتہائی اہم نتائج کی حامل ہوگی۔
اپنے خالق کی نصیحت کو سنجیدگی سے لینے کے لیے دنیا بھر میں کی جانے والی کوششوں کے
عالوہ، ہماری فاؤنڈیشن کے ذریعے کیا جانے واال یہ کام ایک دعا ہے، اوراعالن کرتے ہیں کہ ہم ہر
قسم کی سائنسی شراکت کے لیے تیار ہیں۔ "ہر کسی کا ایک قبلہ ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا
ہے، پس تم نیک کاموں میں مقابلہ کرو، تم جہاں کہیں بھی ہو، ہللا تم سب کو آخرکار اکٹھا کرے گا،
بے شک ہللا ہر چیز پر قادر ہے۔” )البقرة: ۱۴۸/۲(
جس اتھارٹی سے ہم فتو ٰی طلب کریں گے وہاں ہمیں کن شرائط کا خیال رکھنا چاہیے؟
فتو ٰی دینا کسی مذہبی اور شرعی مسئلہ پر رائے کا اظہار کرنا ہے۔ لہذا قرآن جو کہ دین کا منبع ہے،
نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے الفاظ اور جن مسائل پر صحابہ کرام کا بالعموم اتفاق تھا ان کا جاننا
ضروری ہے۔
جن مسائل پر فتو ٰی دینا ہو ان مسائل پرممسلمان علماء کی آراء سے بھی استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔
تاہم، سوال کرنے والے شخص کی مخصوص صورتحال اور جو حاالت اسےدرپیش ہیں وہ بھی اہم
ہیں۔ آخر میں فتو ٰی دینے والے فرد کے پاس حاالت و واقعات کی تشریح کرنے کی صالحیت ہونی
چاہیے۔
سلیمانیہ فاؤنڈیشن کے پاس ہر روز پوری دنیا سے فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے درجنوں سواالت آتے
ہیں۔ ان سواالت کے جوابات ان کےموضوعات کے مطابق اپنے اپنے شعبے کے ماہرین آٹھ علمائے
کرام کی ایک کمیٹی کی طرف سے دیے جاتے ہیں۔ تیار شدہ جوابات پروفیسر ڈاکٹر عبد العزیز بایندر
کی طرف سے چیک کیے جاتے ہیں، جو 21 سال سے استنبول مفتی ڈائریکٹوریٹ میں فتوی کمیٹی
کے چیئرمین ہیں، اورپھر متعلقہ افراد کو بھیجے جاتے ہیں
سلیمانیہ فاؤنڈیشن

Your Header Sidebar area is currently empty. Hurry up and add some widgets.