ادارے کا مقصد تخلیق انسانی اور مذہب کے مطالعے سے حاصل کردہ نتائج کے بارے میں لوگوں کو تعلیم دینا اور عالمی سطح پر اسکی آگہی کو فروغ دینا ہے۔
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چائیے جو بھلائی کی طرف بُلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور بُرے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔ (سورة آل عمران 104 :3)
ترجمہ: یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیئے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں۔ (سورۃ ابراھیم14:52 )
ہم شکر گزار ہیں اس قادر مطلق کے جس کے حضور ہم ہر شے کیلئے مقروض و محتاج ہیں۔ وہی ذات ہے جو اطاعت کی مستحق ہے اور جسکا حکم ہمیشہ رہنے والا ہے۔ یہ ہمارا خالق و مالک ہی ہے جو ذرے ذرے کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بلا شبہ و بلا تامل وہی قرآن مجید کا مالک و محافظ ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔
ترجمہ: اللہ تعالٰی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے ، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے ، اس کی کرسی کی وُسعت نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اُکتاتا ہے وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ (سورة البقرة 2:255)
حالیہ زندگی جس میں ہم جی رہے ہیں اور وہ غیر ارضی زندگی جو قیامت کے ساتھ شروع ہوگئی دونوں میں خالق کی خوشنوی کا حصول اور ہمیشہ رہنے والی جنت میں پہنچنے اور اسکی نعمتوں کے وصول کی دریافت ہم پر ہی منحصر ہے ۔
ترجمہ: بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں دے ۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنّم سے نجات دے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔ (سورة البقرة 202- 200)
بلاشبہ یہ وہ نتا ئج ہيں جوہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسکے لئیے لازم ہے کہ حتی الوسع خدا تعالی کی بھیجی گئی کتاب سے استفادہ حاصل کیا جائے ۔ اور یہ اس (کتاب) کو پڑھنے، سمجھنے کی کوشش کرنے، اس میں درج احکامات اور حد بندیوں کو سنجیدگی سے لینے پر ہی ممکن ہے۔
ترجمہ: جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے۔ (سورة البقرة (121: 2)
ترجمہ: اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے۔ اور وہ انہیں راہ سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ الزخرف 37-36 : 43)
خدا تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش اور اس پر یقین نہ کرنا۔ اس پیغام کے ماخذ کی جانب واپس رجوع نہ کرنا در حقیقت ایک نامعقول رویہ ہے۔ یہ رویہ انسان کی حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور اسے ختم کر دیتا ہے۔
ترجمہ: ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں۔ ( سورة البقرة 78 : (2
قرآن مجید لوگوں کیلئے نازل کردہ کتاب ہے۔
ترجمہ: تاکہ وہ ہر اس شخص کو آگاہ کر دے جو زندہ ہے اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے۔ ( سورۃ يس 70: 36 )
بطور سلیمانیہ فاؤنڈیشن ہمارا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنا اور اسکی اشاعت و تبلیغ ہے۔ قرآن مجید کو سمجھ کر اسکی تعلیمات کی روشنی میں ہی ہمیں اپنی زندگی بسر کرنی چاہئیے۔ نبی محمدؐ کے صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ اسی طرح افراد اور معاشرے پر قرآن مجید کا اچھا اثر پڑے گا۔ انسانیت کے واسطے ، قرآن مجید اور اس میں درج شدہ نصیحت سے امتناعی برتنا واضحتاً خسارہ اور ظلم عظیم ہے۔
اگر چہ لوگوں میں ایک بڑی تعداد ایسے مسلمین کی تھی جو کہ انتہا پسندی کے مختلف بھنور میں پھنس کر ان راستوں کی پیروی کرنے لگے جو کہ قرآن مجید اور پیغمبر کی تعلیمات سے مکمل طور پر الگ تھے ۔ اگر چہ نبی اکرم کو مشرکین (خدا تعالٰی کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں) میں شامل ہونے سے منع کیا گیا تھا۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ ایمان لانے والوں میں بھی ایسے مشرک موجود ہیں جو خدا تعالٰی کو مانتے تو ہیں لیکن اسکی ذات کا ادراک نہیں کرے
ترجمہ: خیال رکھئے کہ یہ کفار آپ کو اللہ تعالٰی کی آیتوں کی تبلیغ سے روک نہ دیں اس کے بعد کہ یہ آپ کی جانب اتاری گئیں ، تو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ ( سورۃ القصص 87: 28 )
بلا شبہ ان حالات اور توہم پرستانہ افکار کا قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تنقیدی جائزہ لینا چاہئے اور ہم سب کو ملکر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہر شخص ماخذ ( قرآن مجید) سے حقیقت پر مبنی علم حاصل کرے۔
ترجمہ: کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اس بنا پر ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ (سورۃ الزخرف 43:5 )
قرآن مجید مومنین کیلئے صرف ایک رہنما ہی نہیں جو کہ انھیں دنیا و آخرت میں اجر دے گا بلکہ اس میں ایسے اصول و تجاویز بھی درج ہیں جو کہ انسانی زندگی کو زمین پر ایک مناسب شکل میں لانے ہی میں مدد دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں موجود زندگی سے متعلقہ درج شدہ تجاویزات اور سائنسی شعبہ جات کے آزاد و منطقی رائے مضامین کے انسانیت پر انتہائی اہم نتائج مرتب ہوں گے "۔
خالق کے پیغام کو سنجیدگی سے لینے اور اسکی تکمیلی کاوشوں کو عالمی سطح پر پہنچانےاور اس کی اصل روح کو پہنچاننے میں ہماری فاؤنڈیشن اور اسکا کام معاون و مددگار رہا ہے اور ہم اعلانیہ، سائنسی سطح پر ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہیں۔
ترجمہ: ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجّہ ہو رہا ہے تم نیکیوں کی طرف دوڑو ۔ جہاں کہیں بھی تم ہو گے ، اللہ تمہیں لے آئے گا ۔ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔ ( سورة البقرة 148/ 2)
ترجمہ: اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتی ہے اور اس کے موافق انصاف بھی کرتی ہے۔ (سورة الاعراف ( 181 : 7 )
ہمارا طریقہ کار:
ذات باری تعالٰی، ہر چیز کیلئے جس کے ہم واجب الادا ہیں جس نے ہمیں قرآن مجید سے نوازا جس کے حقیقت پر مبنی ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا تعالٰی نے لیا ہے اور کس خوبصورتی سے نبی محمد نے اس پر عمل کر کے دکھایا ہے۔ اور یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ اسکو سمجھ کر اس سے جڑے رہیں ۔ اس میں نبی کے صحابہ کرام ہمارے لئے مثالی نمونہ ہوں گے۔ خدا تعالیٰ انکے درجات بلند کرے اور انھیں اسکا اجر دے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر کسی نے مذہب کو سمجھنے کیلئے کوئی نہ کوئی طریقہ کار اپنایا۔ بعض مسلمانوں نے نبی اور ان کے صحابہ کے طرز زندگی کو ترجیح دی[1]۔ کچھ نے سائنسی وضاحتوں کو مانتے ہوئے صرف قرآن و سنت کو ہی پڑھا [2]۔
بعض کا خیال تھا کہ ساتویں صدی کے اوائل میں عرب کے علاقہ حجاز میں خدمات سرانجام دینے والا گورنر، ایسا شخص جو کمشنر کے طور پر جانا جاتا تھا جس نے نبی کی تعلیمات کو بطور رسوم و رواج اپنایا۔
کیونکہ ان کے نزدیک قرآن مجید ایک مخصوص علاقے میں خدا تعالی کے عمل دخل کو ظاہر کرتا ہے اور احادیث کو اس دور کے رسوم کو رواج کے طور پر جانا جاتا تھا ۔ چنانچہ اسلام کو قدیم کہہ کر انھوں نے اسے ایک ثقافتی درجہ دے دیا ۔
بعد از انھوں نے فرضی شخصیات کے ناموں کو اسلامی ناموں میں تبدیل کرے فرضی اسلام کا حصہ بنا دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شرک کو مذہب ضم کر کے اسے حقیقی اسلام کا نام دیا اور قرآن مجید کو دنیاوی اغراض کیلئے استعمال کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔
ہم قرآن مجید کو ترجیح دیتے ہیں اسلئے سب پہلے ہم قرآنی آیات کے ذریعے ہی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس قرآنی آیات میں کچھ بھی ایسا موجود نہیں۔
قرآن مجیت کو سمجھنے کا ہمارا پہلا ذریعہ قانون تخلیقی کو سمجھنا ہے کیونکہ
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ:
ترجمہ: پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ تعالٰی کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ ( سورۃ الروم 30:30 )
یہ بات اہم ہے کہ قرآن مجید (23) تئیس سال کے عرصے میں بتدریج نازل کیا گیا۔ تاہم مسلمان اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ قرآن مجید کا مرکزی موضوع تخلیق خداوندی ہے۔ اور وہ اپنی زندگیوں کی درست ترجمانی کیلئے اس قانون کے پابند ہیں۔
ترجمہ: قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا۔ (سورۃ الاسراء 106 : 17)
قانون تخلیقی کو سمجھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ۔ بعض معاملات میں ہماری یہ سوچ غلط ہو سکتی ہے کہ ہمارے تعصبات اور ہماری عادات تخلیق کے قانون کا حصہ ہیں ۔ اس مقام پر ہم سنت رسول اور نبی کے صحابہ کے عمل کو دیکھتے ہیں ۔ سنت کی ضرورت بہر حال اس معاملے میں بعید واقع ہوتی ہے ۔
اس مرحلے کے بعد یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو جائے گا۔ منت یا تو قرآن مجید کی تفسیر ہے یا اسکے اطلاق کا عملی نمونہ ہے۔ اگر آپ متن سے ہی واقف نہیں تو آپ اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اگر آپ اصل سے واقف نہیں تو آپ مثال کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اسلیئے قرآن مجید کی آیات سنت کے ساتھ ہی مکمل ہوتی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ بظاہر ہمارے پیغمبر محمد کے تردیدی الفاظ دراصل مختلف امور کو ظاہر کرتے ہیں۔
ہماری ویب سائٹ کے اکانومی سیکشن میں اسلامی قوانین پر مبنی چار شعبہ جات اور ظاہری مکتبہ فکر (اہل حدیث) کی مفاہمت اور ان کے اثرات کو بیان کیا ہے۔ اس بارے میں آپ ہمارے رائے جان سکتے ہیں۔ اگر آپ اس پر غور کریں تو ہماں طریقہ کار کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ طلاق سے متعلق خواتین کے حقوق پر مبنی مضمون بھی آپکو بخوبی معلومات فراہم کرے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نظریات کسی کو ایذا نہیں پہنچائیں گے ۔ اسی وجہ سے بطور مذہبی ادارہ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنے ذاتی نقطہ نظر کو بیان نہ کریں۔ اگر ہم غلط ہیں تو براہ کرم ہمیں تنبیہ کریں ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں گے اور اس پر آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
ترجمہ: کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو ، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔ (سورة النحل (116: 6)
تصوف کے حوالے سے ہمارا ضابطہ کار:
فرقے کے سربراہ سے کی گئی درج ذیل گفتگو تصوف میں ہمارے طریقہ کار کی وضاحت کرتی ہے۔
پہلے آیئے ہم کچھ سیکھتے ہیں ۔
کیا آپ تصوف کو مانتے ہیں یا نہیں ؟
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ تصوف سے آپ کیا مراد لیتے ہیں۔ اگر تصوف قرآن و سنت کے مطابق اسلام کو پینے کا ایک ذریعے خواہ اس سے مراد کسی استاد کے گرد جمع ہونا ہے تو میرے نزدیک یہ خوبصورت اور فائدہ مند ہے۔ حکم کے سربراہ کو ایک معلم ، پرہنما اور ایک مثالی انسان بننے کی کوشش کرنی چاہئیے ۔
لیکن اگر آپ اسے ایک روحانی پیشوا بنائیں اور اسے خدا اور بندے کے درمیان بطور ثالث یا ایجنٹ سمجھیں ۔ اگر آپ اسکی روحانیت سے مستفید ہونے کیلئے اس سے مدد کی امید رکھنے کی کوشش کریں تو آپ اصل سے بہت دور جا پہنچیں گے۔ ہم اس انتہائی حد کے خلاف ہیں۔
اگر یہ قانونی مکتبہ فکر جیسا کہ حنفی، مالکی، شیعہ، عسکری یا ماتریدی نقطه نظر کے متضاد ہے تو ہم اس معاملے پر مبالغہ آرائی نہیں کریں گے اور سخت موقف اختیار کریں گے۔ اس بات کے پیش نظر کہ یہ متواتر احادیث کے خلاف ہے 5]]۔ یہ ایسی بات کہتے ہیں جو کہ قرآن مجید کے واضح بیانات کے خلاف ہیں۔ اگر ہم بہت زیادہ اصرار نہ کریں اور خاموشی اختیار کیئے رکھیں تو تصور کریں کہ روز قیامت ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے۔
تصوف کی اہم شخصیات کے حوالے سے ہمارا ضابطہ کار:
فرقے کے سربراہ سے کی گئی درج ذیل گفتگو تصوف کی اہم شخصیات کے متعلق ہمارے ضابطہ کار کی وضاحت کرتی ہے۔
اگر آپ عبد القادر جیلانی کو نہیں مانتے تو ہمارے پاس آپ سے بات کرنے کو کچھ نہیں۔
عبدالقادر جیلانی پر ایمان لانا اسلام کے احکامات میں سے نہیں ہے۔ آپ کو قرآن پر ایمان لانا ہوگا۔
میرے خیال میں اس میں زیادہ تر معلومات ان لوگوں کے بارے میں ہیں جنھوں نے رسول اللہ کے بارے میں لاکھوں احادیث گھڑیں۔ انھوں نے امام ربانی مولانا عبد القادر جیلانی کے حوالے سے کوئی بات کیوں نہیں گھڑی؟
لیکن اگر عبد القادر جیلانی خود اگر کوئی ایسی بات کریں جو قر آن مجید سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس بارے میں کچھ جانتے ہوں گے بلکہ ہم اسے مکمل طور پر مسترد کر دیں گے۔ ہم قرآن مجید کے ذمہ دار ہیں ، عبدالقادر جیلانی (رح) کے نہیں۔
[2] سنت سے مراد رسوم و رواج، روایتی رویہ پارو اپنی قواعد ہیں۔ نبی محمد نے اپنی زندگی میں جو کام کیئے ، انکے الفاظ جو کچھ انھوں نے کہا ، جو کچھ انھوں نے ، برادشت کیا اور شعوری طور پر نہیں کیا ۔ احادیث ، سنت کی بنیاد ہیں۔
[3] شرک سے مراد برابری یا حصہ داری ہے ۔ خدا کی ذات میں شراکت داری سے مراد یہ ہے کہ اسکی مخلوق میں خدا کی ایک یا ایک سے زیادہ صفات دیکھ کر ا نھیں خدا کے برابر سمجھنا۔ علاوہ ازیں، عمل کی خصوصی نیت خدمت خداوندی کی ہونی چاہیئے۔ کوئی بھی ایسا عمل جو محض امداد خداوندی پر مبنی نہ ہو شرک کے زمرے میں آئے گا۔ [4] آیہ (جمع: آیات) کے مختلف لغوی معنی ہیں : معجزه ، واضح نشانی، خاصہ، درس محمدی تدریس یا علامت۔ لفظ آیہ کا زیادہ تر ا ستعمال قرآنی آیت کے لئے ہوتا ہے
[5] متواتر” سلسلوں پر مبنی ایسی کڑی ہے جس کے جھوٹ ہونے کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہم تک احادیث سے آرہی ہے۔