سلیمانیمی فاؤنڈیشن
ہمارا اصولوں

ہمارا اصولوں

ہمارا اصولوں کی پیروی کا طریقہ کار
سلیمانیہ فاونڈیشن میں جن اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے وہ درج ذیل ہیں۔
قرآنی آیات کی وضاحت کا طریقہ کار :
قرآن مجید ایک خود وضاحتی آسمانی/ الہامی کتاب ہے جو کہ از خود اس میں موجود تمام آیات کی بہترین طریقے سے وضاحت کرتی ہے۔ ہر آیت کی تفصیلی وضاحت اسی سے متعلقہ دوسری آیات میں موجود ہے۔ اسلئے تاکہ اس کتاب کی وضاحت کیلئے اور وسائل کی ضرورت پیش نہ آئے۔ قرآن مجید اس بات پر زور دیتا ہے کہ پر کام کسی ایک شخص کی بجائے ماہرین کے گروہ کی مدد سے تکمیل دیا جائے۔ یہ طریقہ کار حکمت کہلاتا ہے ۔ (الحکمۃ)۔ اس طریقہ کار کو اپنانے کے بعد کسی بھی ایسے شخص کی منظوری یا اطاعت نہیں کرنی پڑے گی جو کہ خدا تعالٰی کو کتابوں کی وضاحت کا اختیار رکھنے کا دعوی کرتے ہیں ۔ اس علم ہے متعلق مزید معلومات نیچے دی گئی کڑی سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔
قرآن مجید میں کی گئی وضاحت کو دریافت کرنے کا علم :

ماضی میں اب تک بہت سی غلطیاں اور غلط فیصلے اسلام کے نام پر کئے گئے ہیں ۔ اسلئے کیونکہ علماء خود کو قرآن مجید کی وضاحت کیلئے مجاز سمجھتے تھے ۔ لیکن یہ ذات باری تعالٰی ہی ہے جس نے. قرآن مجید کی وضاحت کی اور ہم صرف اس بات کے مجاز ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سیکھائے گئے طریقہ کار کے ذریعے ہی اسکی وضاحت کریں۔ قرآن مجید میں خدا تعالٰی نے ایک سائنس یعنی علم کا نام دیا ہے۔ آئیے ہم اس پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں
مذکورہ آیت میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ہم نے قرآن کو ایک علم کے مطابق تفصیل سے بیان کیا ہے۔
"وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ”
ترجمہ:
اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت واضح کر کے بیان کر دیا ہے۔ وہ ذریعہ ہدایت اور رحمت ان لوگوں کیلئے ہے جو ایمان لائے ہیں ۔ (الاعراف (7:52)

اس علم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خدا تعالی کے سوا کوئی شخص قرآنی آیات کی تفصیل بیان کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ خوا تعالی نے اپنی کتاب میں موجود تمام آیات کی وضاحت اس سے متعلقہ تمام تفصیلات بیان کرتے ہوئے کی ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللّهَ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ
(ترجمه)
ا۔ل۔ر۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے۔کہ اسکی آیتیں محکم کی گئ ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہاں ایک حکم با خیر کی طرف ہے۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ( ہود 1-2 :11 )

ان آیات کے مطابق خدا تعالٰی کو چھوڑ کر انسانوں کی جانب سے کی گئی وضاحتوں کی تسلیم و تعمیل ہمیں ان لوگوں کا محکوم بناتی ہے ۔ اس سے مراد یہ کہ جو کوئی بھی خدا تعالٰی کی آیات کی وضاحت کا دعوی کرتا ہے صریحاً گمراہ ہے۔ صرف ماہرین کا ایک گروہ ہی خدا تعالی کی طرف سے بیان کی گئی تفصیلات کی وضاحت کر سکتا ہے۔ اسکا پتہ ہمیں مذکورہ آیت سے چلتا ہے:
كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
(ترجمه)
ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیلی کی گئی ہے (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے اس قوم کیلئے جو جانتی ہے- (فصیلات41:3)
لوگوں کے اس گروہ کے پاس قرآن کی وضاحت کا علم ہونا ضروری ہے۔ لفظ قرآن ماخوذ کیا گیا ہے لفظ قراء کے اسم فعل (مصدر) سے جس کا لفظی معنی ہے ” مجموعہ ” یہ ایک اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں ” مقروء” جس کا ترجمہ یکسانیت ، اتحاد یا مجموعہ کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ "پڑھنا” الفاظ کو آپس میں جوڑنے کا عمل ہے تاکہ اسکے معنی کو سمجھا جا سکے تو لفظ قرآن کو بھی پڑھنے کے معنی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کے ایک سے زیادہ عدد نہیں ہیں ۔ ایک ہی لفظ واحد و جمع دونوں کے معنی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لہذا قرآن کو "ایک سے زیادہ قرآن”کے معنی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ پس، قرآن مجید مجموعہ آیات کاایک مجموعہ ہے۔
چار مختلف اقسام کے مجموعے جو کہ آیات کو آپس میں جوڑتے ہیں درج ذیل ہیں۔
-1 پہلا معنی جو لفظ قرآن کے ذکر سے ذہن میں آتا ہے وہ لوح محفوظ میں موجود اہم کتاب ہے۔ اس سے متعلق آیۃ ہے کہ:
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ . فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ . لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ . تَنزِيلٌ مِّن رَّبّ الْعَالَمِينَ .
ترجمہ :
کہ بے شک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے ۔ جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے۔ جسے صرف باک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے۔ (الوا قعہ 80-77 :65)

یہ قرآن عظیم ان تمام آیات کا عظیم الشان مجموعہ ہے جو کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء پر نازل کیا ہے۔ متعلقہ آیت ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ وَما وَصَّيْنا بِهِ إِبْراهِيمَ وَمُوسى وَعِيسى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ . وَما تَفَرَّقُوا إِلاَّ مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْياً بَيْنَهُمْ وَلَوْلا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ
(ترجمہ) :
اللہ تعالیٰ نے تمھارے یے وہی دین مقرر کردیا ہے۔ جس کے قائم کرنے کا اس نے حضرت نوح کو حکم دیا تھا اور جو بذریعہ‎ (وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراھیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپﷺ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو مشرکین پر گراں گزرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، اپنا برگزیدہ بناتا ہے۔
اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت مقرر تک کیلئے پہلے ہی سے قرار پا گئی نہ ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی ہے وہ بھی اس کی طرف سےالجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ (الشعراء 14-13 : 42(

2- آیات کے مجموعے کی دوسری قسم سورۃ کہلاتی ہے۔ ہر ایک سورة (ابواب) کو بھی قرآن کہا جاتا ہے۔ متعلقہ آیت ہے :
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ
ترجمہ: یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا (الحجر 15:87)

3- ابواب (سورۃ) میں موجود آیات کا مجموعہ بھی قرآن کہلاتا ہے۔ در حقیقت وہ آیات جو نبوت کے بہت ابتدائی عرصے میں محمدؐ پر نازل ہوئیں خدا تعالٰی نے انھیں قرآن کہا ہے ۔ کیونکہ وہ آیات کے ایسے مجموعے پر مشتمل ہیں جو کسی ایک سورۃ ( ابواب) میں موجود ہیں
متعلقہ آیت درج ذیل ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
ترجمہ:
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔( البقرة 2:185)

4- آیات کے ایسے مجموعے بھی ہیں جو کہ اکٹھے نہیں پائے جاتے ۔ مجموعہ آیات پر مبنی یہ سیٹس (Sets) مختلف ابواب میں پائے جاتے ہیں جو کہ مثانی (متشابه) طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے تشکیل دیئے جاتے ہیں ۔
متعلقہ آیت ہے:
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا
ترجمہ:
قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اسلیئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا ۔ (الاسراء 106 : 17)

مکث سے مراد ” توقع رکھنا” ہے۔ جب بھی کچھ نئی آیات خدا کے رسولﷺ پر نازل ہوتی تھیں اور اس معاملے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کیلئے مزید تفصیل کی ضرورت پیش آتی تو یہ توقع کی جاتی تھی کہ اس سے متعلق مزید آیات بھی نازل ہوں گی۔ یہ متوقع آیات پہلے سے نازل شدہ آیات کی وضاحت کے بارے میں تفصیل دیتی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی معنوی مجموعے سے تعلق رکھنے والی آیات مختلف اوقات میں جز بہ جز بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔ مذکورہ آیت اوپر کی لکھی جانے والی بات کو واضح کرتی ہے۔
وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
ترجمہ:
"تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے۔ اور کہو اے میرے پروردگار میرا علم بڑھا دے۔(طہ’ 20:114)

مندرجہ بالا آیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ معنوی آیات کا مجموعہ جو ہمیں کسی بھی معاملے سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرتا ہے اور ہمیں اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے قابل بناتا ہے اسے بھی خدا تعالیٰ کی جانب سے قرآن کہا گیا ہے۔ اس قسم کا قرآن، علم قرآن کی وضاحت کی بنیاد ہے۔ اس علم کی رو سے ہر حتمی آیت دیگر آیات کے ذریعے تفصیلاً بیان کی گئی جو کہ بہت سے پہلوؤں میں وضاحت شدہ آیت سے مشابہت رکھتی ہے۔
اسطرح وضاحت شدہ آیات کو اکٹھا کرکے ایک معنوی مجموعہ تشکیل پاتا ہے۔ تمام قرآن خدا تعالٰی کی جانب سے اسی طرح واضح اور مکمل بنایا گیا ہے ۔ آیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس علم میں معنوی مجموعے کس طرح تشکیل دیئے جاتےہیں:
ہر فون نمبر اعداد کا ایک مجموعہ ہوتا ہے، جو کہ صفر سے نو تک کے ہندسوں کو استعمال کر کے لکھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایک ہندسہ بھی غلط لکھ دیا جا تو مطلوبہ شخص تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ قرآن مجید ہر چیز کی اسی طریقے سےوضاحت کرتا ہے۔ ٹھوس معلومات اس وقت تک حاصل نہیں کی جاسکتیں جب تک کہ ضروری معنوی مجموعے تشکیل نہ دے دیئے جائیں۔
لہذا ماہرین کو فیصلہ کر میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے قبل اس کے کہ زیر غور معاملے سے متعلق تمام معنوی مجموعے دریافت نہ کر لئے جائیں ۔
صرف تب ہی یہ بات ظاہر ہو سکے گی کہ علم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جسے قرآن مجید کے ذریعے بہتر نہ بنایا جا سکتا ہو۔
ہمارے نبی محمدؐ پیغمبر اور معلم دونوں ہیں جنھیں قرآن کو سیکھانے کیلئے بھیجا گیا۔ جبکہ جبرائیل ، نبیؐ تک پیغام لانے اور یہ پیغام انھیں سیکھانے کیلئے بھیجے جاتے تھے۔ نبی محمدؐ نے قران مجید اور اس میں موجود اہم معلومات کو اخذکرنے کا طریقہ کار” جبرائیل سے سیکھا ۔ اور ان (نبیؐ) کے تمام ارشادات اور اعمال اسی قسم کی معلومات پر مبنی ہیں ۔ اسی لئے سنت نبی محمدﷺ مکمل طور پر قرآنی تعلیمات کے ہم آہنگ ہے ۔ اگر علماء اس درست طریقہ کار سے جڑے رہیں تو وہ آسانی سے اس یکسانیت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور ان تمام غلطیوں کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ جو نبیؐ کے ارشادات کے بارے میں اب تک ان سے سرزد ہوئیں۔ اس معاملے کو مختصراً بیان کرنے والی آیت درج ذیل ہے۔
هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ
ترجمہ:
وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کیلئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کو کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ (آل عمران 7 : 3 )

"محکم” آیت سے مراد ایسی مرکزی آیت ہے جو کسی بھی معاملے سے متعلق فیصلے پر مبنی ہوتی ہے۔ پس ہم لفظ محکم کا ترجمہ فیصلہ کن کے طور پر کرتے ہیں ۔ تقریباً تمام آیات کسی مخصوص معاملے پر حتمی فیصلہ کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ ایک تفصیلی عمل ہے اور اسی لیے دوسری آیات کے ذریعے اس کی وضاحت کی جاتی ہے جو کہ حتمی آیت کے متشابہ ہوں۔ کوئی بھی دو چیزوں کا ایک سا ہونا متشابہ کہلاتا ہے ۔ اس علم کی رو سے، یہ ایک دو سرے کی وضاحت کرنے والی آیات کے درمیان پائی جانے والی یکسانیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ مشابہت لغوی واصطلا حی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے۔
"تاویل سے مراد کسی شے کا اس کے اصل ہدف کی جانب اشارہ کرنا ہے۔ متشابہ آیت کا ہدف (مقصد) آیت کے مجموعے میں سے وہ مرکزی آیت ہے جسے فیصلہ کن یا حتی آیت کہا جاتا ہے اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تاویل، فیصلہ کن کو متشابہ آیت سے جوڑتی ہے ۔ یہ روابط خدا تعالٰی کی جانب سے بنائے گئے ہیں ۔ اور اس علم میں مہارت رکھنے والے عربی کے ماہرین پر مشتمل لوگوں کا گروہ ہی زیر دلچسپ معاملےسے جڑے ان روابط کو جان اور پرکھ سکتا ہے۔
مثانی سے مراد جوڑے ہیں۔ یہ جفت مرتب پر مبنی نظام کو ظاہر کرتا ہے جو کہ حتمی اور متشابہ آیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ متعلقہ آیت ہے۔
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاء وَمَن يُضْلِلْ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
ترجمہ:
اللہ تعالٰی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں ۔ آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کہ ہدایت جس کے ذریعے جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالٰی ہی بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔
(الزمر 39:23)
نتیجتاً ، ماہرین کے گروہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالٰی کی جانب سے بیان کی گئی وضاحت کے حصول کیلئے اس معاملے سے متعلق حتمی آیت کو تلاش کر کے، اور پھر حتمی آیت سے مشتر کہ خصوصیات رکھنے والی متشابہ آیات کودریافت کریں۔
درج ذیل مثال یہ ظاہر کرتی ہے کہ کیسے "قرآنی وضاحت کا علم” اس معاملےسےمتعلقہ مجموعہ آیات کا ماخذ ہے۔

اس طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے کتاب کی از خود وضاحت صرف قرآن مجید تک ہی مخصوص نہیں ہے۔ یہ تمام الہامی کتب بشمول توریت اور انجیل کا مخصوص خاصہ (صفت) ہے، جب تک کہ متشابہات کو ان کی اصل زبان اور وحی کے اصل الفاظ میں پڑھا جائےیہ سب ہم اس لفظ الحکمۃ” سےسکھتے ہیں جس کا ذکر قرآن مجیدمیں ہے۔
انگریزی میں الحکمت” کا ترجمہ ہم Wisdom” “کے طور پر کرتے ہیں۔ متعدد آیات میں یہ طریقہ کار اور اس طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے آیات سے ٹھوس معلومات اخذ کرنا بھی الحکمت کہلاتا ہے۔
اس علم کو ہم مختصراً الحکمت کا طریقہ کار بھی کہہ سکتے ہیں۔ تمام انبیاء نے اپنی قوموں کو حکمت و دانائی سیکھائی ہے۔ نبی سے مراد وہ شخص ہے جس کا رتبہ خدا تعالیٰ کی جانب سے اسے کتاب اور حکمت ودانائی عطا کرکے بڑھا دیا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح ” سے لے کر حضرت عیسی تک اٹھارہ (18) انبیاء کے ناموں کا ذکر آیات 83-84 : 6 اور ان کی متواتر آیات میں کیا ہے اور اعلان کیا ہے۔
اُولٰئِكَ الَّذٖينَ اٰتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی (الانعام 6:89)

ہر نبی اس بات کا عہدیدار ہے کہ جو پیغام بھی اس پر نازل کیا جائے وہ اسے آگے پہنچائے ۔ چنانچہ ہر نبی رسول بھی ہے۔
مندرجہ ذیل آیت سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ بھی رسول حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُون
ترجمہ : جس طرح ہم نے تم میں تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آ یتیں تمھارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمھیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بے علم تھے۔
(البقرة 2:151)
ایک رسول نے جو پیغام پہنچانا ہے اس میں کچھ بھی شامل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا ایک رسول کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے حکمت کی تعلیم دینا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر حکمت کو جاننے کا طریقہ کار قرآن میں موجود ہو۔ یہ طریقہ کار قرآنی وضاحت کا وہ علم ہے جو کہ قرآن میں دیا گیا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
سیکھائے گئے اس علم کے علاوہ کسی اور طرح سے قرآن کریم کی آیات کو بیان کرنے کی کوشش کرنا خود کو خدا تعالٰی کی جگہ رکھنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ خدا تعالٰی کے احکامات بہت واضح ہیں پھر بھی ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایسا عالم ڈھونڈ سکیں جو یہ طریقہ کار جان سکے یا اسکا استعمال کر سکے۔
اس کے نتیجے میں ایک ایسا ترجمہ یا تفسیر ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے کہ جس میں اس علم کو بیان کرنے والی آیات تحریف شدہ نہ ہوں۔
چالیس برس کے متعدد اتصال اور قرآن کو سمجھنے کی کوششوں کے بعد خدا تعالٰی نے ہمیں اس علم کے حصول کیلئے سلیمانیہ دور تک پہنچایا جو کہ نبی کے صحابہ کرام کے دور سے بھلا دیا گیا۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہے کیونکہ وہ (خدا تعالٰی) ارشاد فرماتا ہے کہ:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے (العنکبوت 26:69 )

خدا تعالٰی کی جانب سے زمین پر فائز شدہ ترتیبی نظام مکمل طور پر ان احکامات کے ہم آہنگ ہے جوکہ اس نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمائے ہیں . خدا تعالٰی نے نظام ترتیب دیا اور پھر اس قدر تی نظام کے تحفظ و بقاء کیلئے کسی رہنما کی صورت پیروی کرے کیلئے آسمانی کتابیں بھیجیں۔ اس (خدا تعالٰی) نے باضابطہ طریقے سے چند آیات کو اور آیات سے جوڑا جس سے آیات کا مجموعہ تشکیل پایا جو کہ معانی کی مکمل وضاحت کرتا ہے۔
آیات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کا طریقہ کار بھی اس نے اسی کتاب میں بیان کیا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے بندوں کا ایسا گروہ جو کہ دیانتدار ہوں اور جنہوں نے کتابوں سے یہ طریقہ کار سیکھا ہو، وہی آیات میں موجود ان روابط کوصحیح سے دریافت کرنے کے قابل ہو سکیں گے اور خدا تعالٰی کی کتابوں میں موجودہ آیات کی وضاحت کو سیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ اسطرح کسی کو بھی دوسرے لوگوں کی تعظیم و تسلیم نہیں کرنی پڑے گی جو کہ کتاب الہی کی وضاحت کا اختیار رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
یہ خدا تعالٰی کی جانب سے مقرر کیا گیا ایک کامل توازن ہے ۔ اگر ہم” قرآنی وضاحت کا علم ” کی پابندی کریں بجائے اس کے کہ بندوں کو خدا تعالیٰ کی کتاب کا عہد یدار مانیں تو یہ توازن قائم رہے گا اور تمام مخلوقات پر امن رہیں گی ۔ تاہم اگر ہم آیات کی وضاحت لوگوں کے مفروضوں کے مطابق کرتے رہیں گے اور کتاب الٰہی میں موجود حق کو انسانی فیصلوں سے مسترد کریں گے تو لوگوں کو ایک دوسرے سے اختلافات رہیں گے اور توازن بگڑ جائے گا پر امن زندگی گزارنے کا واحد طریقہ خدا تعالیٰ کی کتاب پر مکمل اعتماد رکھنا، یہ سمجھنا کہ اس میں تمام مخلوقات کیلئے مکمل سچائی ہے ، خدا تعالٰی کو مختار واحد جاننا اور احکام الٰہی کی مکمل اطاعت کرنا ہے-

دین اور فطرت :
قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ تمام نشانیاں موجود ہیں۔ اگر اس طریقہ کار کو بنیاد بنا کر درست طریقے سے اسکا مطالعہ کیا جائے تو آیات سے حاصل ہونے والے نتائج فطری اصولوں کے عین مطابق ہوں گے ۔ کیونکہ فطرت خدا تعالیٰ کی تخلیق کردہ نشانیوں پر ہی مبنی ہے۔
زمین پر خدا تعالٰی کا مربوط شده فطری نظام مکمل طور پر ان احکامات کے ہم آہنگ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں جاری کئے ہیں ۔ خدا تعالٰی نے پہلے ایک نظام ترتیب دیا اور پھر اس فطری نظام کے تحفظ و بقاء کی خاطر کسی راہنما کے جیسے پیروی کرنے کیلئے الہامی کتب نازل کیں ۔ یہ الہیات اور نظام فطرت کے درمیان پایا جانے والا بلا واسطہ تعلق ہے۔
ترجمہ: پس آپ یکسو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں الله تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (الروم 30:30 )

سنت رسولﷺ کی مثال :
دین اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا مشاہدہ کرنے کیلئے سنت رسول محمدؐ ایک بہترین نمونہ / مثال ہے ۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
ترجمہ: یقیناً تمھارے لئے رسول اللہ میں بہترین نمونہ (موجود) ہے ۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالٰی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ (الاحزاب 33:21 )

سنت رسول محمدﷺ قرآن مجید کا عملی نمونہ ہے ۔ اصل کا ادراک کیئے بغیر عمل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا سنت رسولﷺ کا تجزیہ قرآنی تعلیمات کی رو سے کیا جانا چاہئیے اور ان (بنیﷺ) کے نام سے متعلقہ روایات کو عمومی جاننے سے قبل اسکا موازنہ قرآنی آیات سے کیا جانا چاہیئے۔

قرآن مجید – سلسلہ وحی کی آخری کڑی کے طور پر:
قرآن مجید وہ آخری کڑی ہے جو کہ خدا تعالٰی کی جانب سے نافذ شده سلسلہ وحی کے تمام مذاہب کی تکمیل کرتی ہے ۔ ایسا مذہبجو کہ ازل سے اطاعت خداوندی پر مبنی ہے، اسلام کہلاتا ہے۔ قرآن مجید سابقے آسمانی صحیفوں کی تردید یا نفی نہیں بلکہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ نبی محمدﷺ نے ان تمام لوگوں سے مل کر جو کہ سابقہ صحیفوں کو ماننے والے تھے، قرآن مجید اور ان صحیفوں میں موجود مماثلت کو ان کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن مجیدان (سابقہ صحیفوں) کی گواہی دیتا ہے۔
غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ہمیں اس طریقہ کار کو لازمی اپنانا چاہیئے۔ الہامی کتب کے ایک دوسری سے تعلق کے بارے میں مزید معلومات نیچے دیئے گئے لنک سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔

سسلسہ وحی کی آخری کڑی:

روایتی اسلام، اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر لیتا ہے جو کہ پچھلی تعلیمات وحی سے مختلف اور منفرد ہے ۔ تاہم قرآن مجید خود کو ” سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور دین کی تکمیل کرنے والی کتاب” کا نام دیتا ہے، یعنی کہ اسلام – اسلام کے لغوی معنی” تسلیم خداوندی کے ہیں ۔ یہ وہ واحد مذہب ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیکر حضرت محمدؐ تک پہنچایا گیا۔

ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ (آل عمران 3:19)

ترجمہ : اے مسلمانو! تم سب کیو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراھیم ، اسماعیل ، اسحاق اور یعقوب (علیهم السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسی (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) دیے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ۔ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں (البقرة 163 : 2)

ترجمہ : کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیهم السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے ؟ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالٰی ؟ اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے ؟ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ۔ (البقرۃ 140: 2)

ترجمہ : اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو ۔
(یونس :10:84)

قرآن مجید – سابقہ الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی کتاب : انگریزی کا لفظ ” Torah” اور عبرانی لفظ”Tora ” عہد نامہ قدیم کی. پہلی پانچ کتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ جبکہ قرآن مجید میں مذکور عربی کا لفظ ” توراۃ عہد نامہ قدیم کی کتاب کتب کی جانب اشارہ کرتا ہے جسے عبرانی زبان میں” تَنَخ” (Tanakh) کا نام دیا جاتا ہے ۔ لہذا، آیات کے انگریزی میں کئے جانے والے ترجمہ میں ” Torah ” سے مراد "تَنَخ” (Tanakh) ہے ۔ قرآن مجید میں موجود عربی زبان کا لفظ انجیل” انگریزی زبان میں Gospel ” یا یونانی زبان میں اسکا نام "Evangelion” ” کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قرآن مجید سابقہ صحیفوں کی نفی یا ترد پر نہیں بلکہ ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ ترجمہ : جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اسی نے اس سے پہلے تو رات اور انجیل کو
اتارا تھا۔ (آل عمران 3:3)

ترجمہ:
اللہ تعالٰی نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو بذریعہ وحی ہم نے میری طرف بھیج دی ہے اور جسکا تا کیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔(الشورى 42:13)

محمدؐ کی طرف سے مندرجہ ذیل روایت اس بات کو مختصراً بیان کرتی ہے کہ اسلام کیا ہے۔ اور نبی محمدؐ کو کس مقصد کے تحت بھیجا گیا۔
حضرت جابرہ سے مروی ہے کہ رسول محمد نے فرمایا : حضرت جابرہ سے مروی ہے کہ رسول محمد نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے) انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا اور ایک . اینٹ کی جگہ کے سوا اس (سارے گھر کو پورا کر دیا اور اچھی طرح مکمل کر دیا۔ لوگ اس میں داخل ہوتے، اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے اور کہتے : کاش ! اس اینٹ کی جگہ (خالی) نہ ہوتی ! رسول اللہ نے فرمایا : ” اس اینٹ کی جگہ کو پر کرنے والا میں ہوں ۔ میں آیا تو انبیاء کے سلسلے کو مکمل کر دیا۔ ( صحیح مسلم ، فضائل کی کتاب : 22879 )
انجیل کی بنیاد توریت ہے اور حضرت عیسی تورات کی تکمیل کرتے ہیں ۔ خدا تعالٰی نے حضرت عیسی کو تورات اور انجیل دونوں سیکھا ئیں کیونکہ ۔ حضرت عیسیٰ کو بھی خدا تعالیٰ کے سابقہ قانون کی تصدیق و تکمیل کیلئے بھجا گیا تھا
ترجمہ:
( مریمٔ ) کہنے لگیں الہی مجھے لڑکا کیسے ہوگا ؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔ فرشتے نے کہا اسی طرح الله جو چا ہے پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے۔ تو صرف یہ کہہ دیتا ہے۔ کہ ہو جا ! تو وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی اسے لکھنا اور حکمت اور توراۃ اور انجیل سکھائے گا-
(آل عمران 48-3:47)

یہی اصول انجیل متی میں درج ہے۔ عیسی نے فرمایا : یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے ۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔ (متی 19-17 : 5)

تورات اور انجیل پر ایمان لانے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی بھی تعمیل کریں : آخری پیغمبر محمدؐ کے علاوہ تمام انبیاء نے اپنے بعد آنے والے تمام پیغمبروں کی حمایت کی اور ان پر ایمان لانے تاکید کی تاکہ سلسلہ وحی پیغمبروں اور مومنین کی کاوشوں کے ذریعےبا آسانی تکمیل کو پہنچے ۔
ترجمہ: سب اللہ تعالٰی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تھیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمھارے پاس وہ رسول [1] آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمھارے لیے اس پر ایمان. لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو ؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرارے ، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
( آل عمران 81: 3)
جب خدا کے آخری نبی محمّدﷺ آئے تو آگے آنے والے پیغمبر پر ایمان لانے کی بھاری ذمہ داری ہمیشہ کیلئے ختم کردی گئی ۔ متعدد مومنین کے عدالتی اور روزمرہ معمولات زندگی کے مسائل کے خاتمے کا حل قرآن مجید میں موجود ہے۔
ترجمہ:
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔
(الاعراف 7:157)
وه ، جنھیں قرآن مجید سے قبل مقدس صحیفے عطا کئے گئے ان کی کتابوں میں آگے آنے والی کتاب کی خصوصیات، پیغمبر اور ان کی خصوصیات واضح طور پر درج ہیں تاکہ وہ آسانی سے آخری کتاب کو جان سکیں جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود صحیفوں کی تصدیق کرتی ہے.
ترجمہ:
کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنھیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے۔ ہمارے رب کا وعدہ بلا شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے ۔ وہ اپنی تھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اورخشوع وخضوع کو بڑھا دیتا ہے ۔ (الاسراء 109-17:107)

مثال کے طور پر انجیل مقدس میں ایک باب ہے جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قبلہ کی سمت یروشلم سے بدل کر کسی اور سمت میں ہو جائے گی جو کہ قرآن مجید کے نزول کے ساتھ سچ ثابت ہوا۔
"عورت نے فرمایا کہ اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نبی ہے۔ ہماب باپ دادا نے اس پہاڑ کی پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنی چاہیئے یروشلم میں ہے ۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلم میں تم جسے نہیں جانتے اس کی پرستش کرتے۔”(یوحنا 4:19-21)

قرآن مجید – سلسلہ اسلام کی آخری کڑی:
قرآن مجید وہ آخری الہامی کتاب ہے جو خدا تعالی کی طرف سے قائم شدہ مذہب کے سلسلہ وحی کی تکمیل کرتی ہے. وہ مذہب جو کہ ازل سے اطاعت خداوی پرمبنی ہے ، جسے اسلام کا نام دیا گیا ہے۔

ترجمہ: آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ( المائدہ 3:30)
سلسلہ وحی سے متعلق کتب کے بارے میں مزید معلومات نیچے دیئے گئے لنکس سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔

[1] آیت میں مذکور لفظ رسول” سے مراد نازل شدہ معلومات اور پیغمبر جو کہ نازل شدہ معلومات کی تبلیغ کرتا ہے دونوں ہیں۔ یہ معلومات پیغمبر سے زیادہ اہمیت کی حاصل ہیں اور اسی لیے ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :
ترجمہ: (حضرت محمدؐ صرف رسول کے ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول. ہو چکے ہیں ۔ کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں تو تم اسلام سے اپنی اپڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ (آل عمران 144: 3)

رسول محمد جو معلومات لائے ہیں وہ قرآن مجید میں جمع کی گئی ہیں۔ نبیؐ کے وصال کے بعد سے یہ کہنا موزوں ہو گا کہ قرآن مجید خود ایک "رسول” ہے ۔ چنانچہ اس بات پر انحصار کرتے ہوئے لفظ "رسول” کو "خدا تعالیٰ کی کتاب” اور اس ضمن میں ساتھ ہی ساتھ ” خدا تعالیٰ کے پیغمبر” کے معنی سے بھی تفویض کیا گیا ہے۔

Your Header Sidebar area is currently empty. Hurry up and add some widgets.