سورۃ المسد (سورۃ الّھب)
111-سورۃ اللّھب)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جس کی بھلائی لامتناہی ہے اور جس کا فضل بہت زیادہ ہے۔
تَبَّتۡ يَدَآ أَبِي لَهَبٖ وَتَبَّلا(1)
١۔ابو لہب کے ساتھ سوکھ جائیں، وہ خودبھی سوکھ گیاہے۔
ابو لہب محمد ﷺکا چچا تھا۔ آپ کی بیٹوں رقیہ اور اٗم کلثوم کی شادی اس کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ ہو چکی تھی۔جب انہیں قرآن کی طرف بلایا جانا شروع کیا گیا تو ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور اس کے بیٹوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔سورہ میں بتایا گیاکہ ابو لہب اور اس کی بیوی نے ہمارے نبیّ کو بہت تکالیف پہنچائی ہیں۔ جو تکلیفیں انہوں نےپہنچائی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں توبہ کا دروازہ موت سے پہلے تک کھلا ہے(نساء18-17/4)
ہمارے نبیّﷺ نے فرمایہ:’ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ روح حلق تک پہنچ جانے سے پہلےتک قبول کرتا ہے۔”(ترمذی، دعوت98، ابن ماجہ، زہد30؛ احمد بن حنبل، 153,132/2)۔ابو لہب اور اس کی بیوی کا ہمارےنبیّ کے ساتھ سلوک ہرگز اس قدر نہیں تھا جیسا کہ فرعون اور اسے خاندان کا موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے ساتھ برتاؤتھا۔ وہ بھی موت آنے سے پہلےتوبہ کرکے سیدھے راستے پر لوٹ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار پہنچایا۔ فرعون اور اس کی فوجوں نے فوراً اس پیچھایا کیا تاکہ انہیں پکڑ کر کچل ڈالیں۔ فرعون جب ڈوبنے والا تھا تو اس نے کہا:” میں مانتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور بھروسہ کیا۔ میں بھی مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ہوں۔”ُ(اللہ نے فرمایا)”اب؟ جبکہ اس وقت تک تم بغاوت میں ملوث اور پکےتخریب کار تھے۔ اب تو ہم تمھارے جسم کو محفوظ رکھیں گے تاکہ یہ آپ کے بعد والوں کے لیے نشانی / عبرت بن جائے۔ کیونکہ اکثر لوگ ہماری آیات پر پوری توجہ نہیں دیتے”۔(یونس92-90/10)۔
اس میں شک نہیں کہ یہ احکام ابو لہب اوراس کی بیوی کے لیے بھی ایسا ہی ہے ، لیکن ابن عباس سے منسوب ایک روایت میں دعویٰ کیا گیا ہے اور آیات کے آگے روایت ڈالنے سے یہ مان لیا جاتا ہے کہ سورہ تبت اس وقت نازل ہوئی جب ابو لہب اور اس کی بیوی زندہ تھے ۔ روایت درج ذیل ہے:
"اپنے قریبی رشتہ دار کو خبر دار کرو۔”(الشعراء214/26)جب یہ نازل ہوئی تو رسول ﷺ صفا پہاڑی پر تشریف لے گئے اور : اے بنی فہر! اے بنی عدی!۔ کہتے ہوئے اونچی آواز میں پکارنا شروع کیا یہاں تک کہ قریش کے تمام قبائل جمع ہوگئے۔ اور جو شخص نہیں آسکااس نے بھی اپنی جگہ کسی اور کو بھیج دیا تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب ابو لہب اور تمام اہل قریش آگئے تو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا: اگر میں کہوں کہ اس وادی میں دشمن کی گھڑسوار فوج حملہ کرنے والی ہے تو کیا آپ مجھ پر یقین کر لیں گے”۔
کہنے لگے: جی ہاں!۔۔ ہم نے آج تک تمہارے منہ سچ کے سوا کچھ نہیں سنا۔” اس پر انہوں نے کہا:”میں تمہیں خبردار کرتا ہوں اس سے پہلے کہ تم اپنے جرم کے باعث ایک عذاب کا سامنا کرو۔” بعد کے دنوں میں ابو لہب نے کہا:”تمھارے ہاتھ سوکھ جائیں، تم کچھ بھی کرنے کے قابل نہ رہو! کیا اس لیے تم نے ہمیں اکٹھا کیا ہے؟” یہ کہنےکی وجہ سے صورۃ الہب نازل ہوئی(بخاری، تفسیر،111)
یہ واقعہ ایک کڑا جھوٹ اور افسانہ ہے۔ واحدعینی شاہد واقعے کی مبینہ تاریخ کے تقریباًدس سال بعد پیدا ہوا۔ جوکہ ابن عباس ہیں۔ اگر ایسا واقعہ ہوتا تو بہت سے عینی شاہدین ہوتے۔ دوسری غلطی یہ ہےکہ "اپنے قریبی ترین رشتہ دار کو خبر کرو”۔ (الشعراء214/26)یہ حکم مکہ میں دیا گیا۔ وہاں ہمارے نبی کے قریبی رشتہ دار اور قبیلہ قریش کے نہیں بلکہ قریش کی بنی ہاشم شاخ سے بنی عبدالمطلب تھے۔ اگر دعوت دیتے تو صرف انہیں ہی دیتے۔
” جو نہ جا سکےانہوں نے اپنی جگہ کسی کو بھیج دیا” کہا جا رہا ہے تو مکہ میں قریش قبیلے کے علاعہ کوئی تھا ہی نہیں جس کی وجہ سے اگر کوئی نہ جا سکے تو وہ کسی دوسرے قبیلے میں سے کسی کو بھیجتا۔ اس کے علاوہ”تمہارے ہاتھ سوکھ جائیں” اگر یہ کلمات ابو لہب نے کہے تو اس کی بیوی کا کیا قصور ؟ اس سورہ میں وہ بھی شامل ہے۔
ویسے بھی اس طرح کی دعوت کے بعد سورہ الھب جیسی سورہ نازل نہیں ہو سکتی ۔ کیونہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کی سوچنے اور بیدار ہونے کے لیے کافی مہلت دیتاہے۔
متعلقہ آیات میں سے اس طرح سے ہے:”اللہ انسانوں کے ان کے برے کاموں کا بدلہ اتنی ہی جلدی دے دیتا جتنی جلدی ان کے اچھے کاموں کا دیتا ہے تو ان کی زندگی ختم ہو جاتی۔ لیکن وہ اُن لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے جو اپنی سرکشی میں اُس کا سامنا کیے جانے کی پرواہ نہیں کرتے اور لڑکھڑاتے رہتے ہیں۔”(یونس 11/10۔ نیز دیکھیں نحل 61/16، فاطر45/35)
مَآ أَغۡنَىٰ عَنۡهُ مَالُهُۥ وَمَا كَسَبَلا(2)
٢-نہ اس کی دولت اور نہ اس کی کمائی اس کے کسی کام آئی۔
سَيَصۡلَىٰ نَارٗا ذَاتَ لَهَبٖلا(3)
٣۔اس بھڑکتی ہوئی آگ میں بھونا جائےگا۔
وَٱمۡرَأَتُهُۥ حَمَّالَةَ ٱلۡحَطَبِلا(4)
٤۔اس کی بیوی بھی لکڑیاں ڈھونے کا کام کرے گی۔
فِي جِيدِهَا حَبۡلٞ مِّن مَّسَدِۭلا(5)
٥-اس کی گردن کے گردریشے سے بنی ہوئی رسی ہوگی۔
عکرمہ کے مطابق، جس نے ابن عباس سے زیادہ احادیث روایت کیں، ابورافع سے دعوی کردہ روایت کی بنیاد پر، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ابو لہب کی موت جنگ بدر بعد مکہ میں کوئی(احمد بن حنبل،مسند جلدIVم صفحہ9)۔ یہ سب باتیں،سورہ لہب کے ابولہب کی موت سے پہلے نازل ہونے کا تقاضا کرتی ہیں۔ حالانکہاگر یہ سورۃابو لہب اور اسکی بیوی کی موت سے پہلے نازل ہوئی ہوتی تویہ سورہ کے متن اور قرآن کی متعد آیات دونوں کے خلاف ہوتا۔
یہ سب جھوٹ شاید مسلمانوں کو تقدیر کے عقیدے کو جو قرآن میں شامل نہیں قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے بنائے گئے ہوں۔
2-عربی زبان و تفسیر کے عالم الفراء نے متوفی (822/207("=تَبَّتۡ يَدَآ أَبِي لَهَبٖابو لہب کے ہاتھ خشک ہو جائیں!: ک بددعا ، اور وَتَبَّ، اورخود بھی وہ سوکھ گیا ہے!” کے جملے میں،(وَقدتبَّ) ، تقدیر میں خبر: جملےکی موجودگی کو بیان کیا ہے (اعجاز البیان عن معان القرآن)۔
دوسرے جملے کا خبر کا جملہ ہونا سورہ کے ابولہب کی موت بعد نازل ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ توبہ کا دروازہ بندے کے موت تک کھلا رہتاہے۔ (سورۃنساہ18-17/4)اس لیے یہ سورہ اس کی موت سے پہلے نازل نہیں ہو سکتی،