سورۃ البینہ (98)
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے۔
(البینہ 98/1)
لَمْ يَكُنِ الَّذ۪ينَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِك۪ينَ مُنْفَكّ۪ينَ حَتّٰى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا، وہ اس وقت تک اپنی روش سے باز نہ آئے جب تک ان کے پاس واضح دلیل نہ آگئی۔
[*] واضح دلیل سے مراد اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی ہدایت اور حقائق ہیں، جو ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ (مزید وضاحت: سورۃ البقرہ 2:213، سورۃ آل عمران 3:19)
(البینہ 98/2)
رَسُولٌ مِنَ اللّٰهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً
اللہ کا ایک رسول، جو پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سناتا ہے۔
[*] ان صحیفوں میں واضح اور صاف حقائق درج تھے۔ (مزید وضاحت: سورۃ المائدہ 5:19، سورۃ الانعام 6:155-157)
(البینہ 98/3)
ف۪يهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
ان صحیفوں میں بالکل درست اور حق پر مبنی احکامات ہیں۔
(البینہ 98/4)
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذ۪ينَ اُو۫تُوا الْكِتَابَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَٓاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ
اہل کتاب، واضح دلیل آ جانے کے بعد ہی اختلافات میں پڑ گئے۔
[*] حق واضح ہونے کے باوجود، بعض لوگ اپنے مفادات کی خاطر ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ (مزید وضاحت: سورۃ آل عمران 3:105، سورۃ الشوریٰ 42:14)
(البینہ 98/5)
وَمَٓا اُمِرُٓوا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِص۪ينَ لَهُ الدّ۪ينَ حُنَفَٓاءَ وَيُق۪يمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ د۪ينُ الْقَيِّمَةِ
انہیں تو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے، یکسو ہو کر۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ یہی سیدھا اور درست دین ہے۔
[*] دین کو خالص کرنے کا مطلب ہے کہ اس میں کسی اور کی عبادت یا غیر ضروری باتیں شامل نہ کی جائیں۔ (مزید وضاحت: سورۃ البقرہ 2:83، سورۃ الشوریٰ 42:13)
(البینہ 98/6)
اِنَّ الَّذ۪ينَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِك۪ينَ ف۪ي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِد۪ينَ ف۪يهَاۜ اُو۬لٰٓئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی لوگ تمام مخلوقات میں بدترین ہیں۔
[*] ان کا انجام ان کے اعمال کی سزا کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ (مزید وضاحت: سورۃ النساء 4:167-169)
(البینہ 98/7)
اِنَّ الَّذ۪ينَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِۙ اُو۬لٰٓئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، وہی بہترین مخلوق ہیں۔
(البینہ 98/8)
جَزَٓاؤُ۬هُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْر۪ي مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهَارُ خَالِد۪ينَ ف۪يهَٓا اَبَدًاۜ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُۜ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ
ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ ان کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
[*] یہ ان لوگوں کی جزا ہے جنہوں نے دنیا میں اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزاری۔ (مزید وضاحت: سورۃ آل عمران 3:15، سورۃ المائدہ 5:119)
یہ سورت ایمان، عمل صالح اور اللہ کے ساتھ اخلاص کے اصولوں کو واضح کرتی ہے اور اہل کتاب و مشرکین کے رویوں پر تنقید کرتی ہے۔