سورة النبأ
(سورۃ النبأ)
بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ کے نام سے، جس کی بھلائی لامتناہی ہے اور جس کا فضل بہت زیادہ ہے۔
عَمَّ يَتَسَاءلُونَ {1}
1. وہ ایک دوسرے سے کیا پوچھتے ہیں؟
عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ {2}
2. وہ بڑی اور اہم خبر
الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ {3}
3. جس کے بارے میں وہ اختلاف میں پڑھ گئے تھے؟
كَلَّا سَيَعْلَمُونَ {4}
4. (انہیں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے) وہ جلد ہی جان لیں گے۔
ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ {5}
5. نہیں نہیں، انہیں جلد ہی پتہ چل جائے گا!
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا {6}
6. کیا ہم نے زمین کو گہوارہ نہیں بنایا؟
وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا {7}
7. اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑھ دیا۔
وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا {8}
8. ہم نے تمہیں (تمہارے جسم اور تمہاری روح) کو جوڑے جوڑے کی صورت میں پیدا کیاہے۔
وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا {9}
9. ہم نے تمھاری نیند کو زندگی سے توڑکر بنایا۔
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا {10}
10. رات کو ایک پردے کی صورت میں بنایا۔
وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا {11}
——————————————
وہ جلد ہی بڑی اور اہم خبر جان لیں گے۔ آخرت میں دوبارہ زندہ ہو جانے کے بارے میں (قیامت کے بارے میں )
(سورۃص 38/50-68، 88؛ سورۃالزخرُف 43/89، التکا ثُر 102/3-4)
دنیا کو ایک گہوارہ بننے کے لیے، اسے دونوں طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔ اس کے جھکاؤ کی شکل کے مطابق، خط استوا کا ایک رخ سورج کے سامنے جبکہ دوسرا رخ دور رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورج کی شعاعیں سال کے کچھ حصے میں زیادہ عمودی طور پر دنیا کے شمال کی طرف اور سال کے کچھ حصے میں جنوب کی طرف آتی ہیں (طہٰ 20/53، سورۃالزخرُف 43/10، الذاریٰت 51/48)۔
الرعد 13/3، النحل 16/15، انبیا 21/31، لقمان 31/10۔
یہاں ” جوڑے جوڑے کی صورت میں پیدا کرنے ” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رحم مادرمیں نر ہے یا مادہ۔ کیونکہ نر یا مادہ کا تعین فرٹلائزیشن کے بعد نہیں بلکہ فرٹلائزیشن کے دوران ہی ہوجاتا ہے، (النجم 53/45- 46 ،عبس 80 / -18 19) رحم مادر میں جسم کی ساخت مکمل ہونے کے بعد جب جسم میں روح پھونکی جاتی ہے تو روح اور جسم کا میل ہوتا ہے اور ایک نیا ڈھانچہ بنتا ہے۔ اس آیت میں ذکر کیا جانے والا جوڑےجوڑے کا مفہوم یہی ہے (مومنون 23/14، فاطر 35/11)۔ روح جسم سے دو طرح سے جدا ہوتی ہے۔ ایک نیند کے دوران ہوتا ہے اور دوسرا موت کے دوران ہوتا ہے۔ جب سوتا ہوا جاگتا ہے اور مردہ شخص کو بعد کی زندگی میں دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے تو اس کی روح اس کے جسم میں واپس آجاتی ہے اور جوڑا دوبارہ بن جا تاہے (زمر 39/42، تکویر 81/7)۔
فرقان 25/47، روم 30/23۔
———————————————-
11. دن کو ہم نے کام کرنے اور کمانے کا وقت بنا دیا۔
وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا {12}
12. تمھارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے۔
وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا {13}
13. اس کے علاوہ ہم نے زیادہ گرمی پھیلانے والا روشنی کا ایک منبع / سورج بنایا ۔
وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجًا {14}
14. سیر شدہ بادلوں میں سے موسلا دھار بارش برسائی ،
لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا {15}
15. تاکہ ہم اس سے اناج اور پودے اگائیں۔
وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا {16}
16. (پودے) پھولوں سے بھرپور باغات بھی جو آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا {17}
17. نیکی اور برائی کی تمیز کا دن (اللہ کی طرف سے) مقررہ کردہ ایک وقت ہے۔
يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا {18}
18. اس دن صور پھونکا جائے گا اور تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔
وَفُتِحَتِ السَّمَاء فَكَانَتْ أَبْوَابًا {19}
19. آسمان کھل جائے گا اور دروازے بنادئے جائیں گے۔
وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا {20}
20. پہاڑوں کو حرکت دے کر سرابوں میں بدل دیا جائے گا ۔
إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا {21}
21. جہنم گھات لگائے بیٹھ جائے گی۔
لِلْطَّاغِينَ مَآبًا {22}
22. حد سے گزرنے والوں کی منزل،
——————————————————-
انعام 6/96، یونس 10/67، اسراء 17/12، فرقان 25/47، نمل 27/86، قصاص 28/73، مؤمن 40/61۔
ملک 67/3۔ نوح 71/15،
فرقان 25/61، نوح 71/16۔
وہ نقطہ جس پر ہوا ، پانی کے مالیکیول کے مائع میں بدلے بغیر زیادہ سے زیادہ پانی کے بخارات اٹھا سکتی ہے اسے سیچوریشن پوائنٹ کہا جاتا ہے ۔ (https://bilimgenc.tubitak.gov.tr/makale/bulutlari-olusturan-su-damlaciklari-nasil- bir-arada-durur)۔ جب سیچوریشن پوائنٹ حد سے زیادہ ہو جائے تو بادلوں میں پانی کے بخارات مائع ہو جاتے ہیں اور بارش شروع ہو جاتی ہے (اعراف 7/57)۔ جو بادل اس مقام تک پہنچے ہیں ان کو آیت میں "مُعْصِرَاتِ” کہا گیا ہے۔ یہ لفظ عربی میں گاڑھے بادلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
الحجر 15/22، مؤمنون 23/18، فرقان 25/48، لقمان 31/10۔
انعام 6/99، طہ 20/53، کہف 50/9، عبس 80/25-32۔
انعام 6/141، مؤمنون 23/19، نمل 27/60، یٰسین 36/33-34۔
الصفت 37/21، الدخان 44/40-42، مرسلات 77/13-15، 35-38،
انعام 6/73، کہف 18/99، طہ 20/102، مؤمنون 23/101، النمل 27/87، یٰسین 36/51، الصفت 37/19، زمر 39/68، کہف 50/20 ، الحاقہ 69/13۔
انبیاء 21/104، فرقان 25/25، الطور 52/9، رحمٰن 55/37، الحاقہ 69/16، المعارج 70/8، مزمل 73/18، المرسلٰت 77/9، التکویر 81/11، الانفطار 82/1، انشقاق 84/1-2۔
کہف 18/47، طٰحہ 20/105-107، الطور 52/10، الواقعہ 56/5-6، الحاقہ 69/14، المعارج 70/9، مزمل 73/14، المرسلٰت 77/10، التکویر 81/3، القارعہ 101/5۔
شعراء 26/91، المعارج 70/17، النٰز عٰت 79/36،
ص 38/55-56
———————————————————–
لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا {23}
23. مدتوں تک اس میں پڑےرہنے کے لیے (ان کا ٹھکانا)…
لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا {24}
24. وہ اس میں ٹھنڈک یا (آرام پہچانے والا) کوئی مشروب نہ چکھ سکیں گے۔
إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا {25}
25. وہ صرف وہی کچھ چکھیں گے جو بہت گرم ہو یا جو بہت ٹھنڈا ہوگا
جَزَاء وِفَاقًا {26}
26. جرم کی مناسبت سے (انہیں سزا دی جائے گی) ۔
إِنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ حِسَابًا {27}
27. کیونکہ انہوں نے حساب کتاب ہونے کا انتظار نہیں کرنا تھا۔
وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا {28}
28. وہ ہماری آیات کے سامنے جھوٹ کا دامن تھامے رہتے تھے۔
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا {29}
29. چنانچہ ہم نے (جو کچھ انہوں نے کیا) ایک ایک کرکے سب کچھ لکھ کر ریکارڈ کر لیا۔
فَذُوقُوا فَلَن نَّزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا {30}
30. اب اسے چکھو! ہم آپ کو صرف ایک (گنا) عذاب دیں گے!
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا {31}
31. یقیناً جو برائی سے بچتے ہیں ان لوگوں کے لیے نجات کی ایک جگہ موجود ہے ۔
حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا {32}
32. باغات، انگوروں کے باغیچے
وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا {33}
33. معیاری خدمات فراہم کرنے والی،ایک دوسرے کی ہم عمر خواتین/حوریں ۔
———————————————————–
ہود 11/107۔
الکہف 18/29، صفات 37/67، ص 38/57-58، الواقعہ 56/53-55، الغاشیہ 88/5۔
اللہ کا جزا اور سزا بندے کے اعمال کے تناسب سے ہے (النساء 4/40، انعام 6/160، اسراء 17/63، النمل 27/89-90، قصاص 28/84، مؤمن 40/40)۔
یونس 10/7-8، انبیا 21/1، انشقاق 84/14۔
المائدہ 5/10، 86، انعام 6/49، الاعراف 7/36، 40، حج 22/57، روم 30/16،التغابن 64/10۔
کہف 18/49، یٰسین 36/12، الزُخرُف 43/80، الجاثیہ 45/29، کہف 50/17-18؛ القمر 54/52-53، انفطار 82/10-12۔
السجدہ 32/14، فاطر 35/36-37۔
برائی کا کئی گنا سزا دینے کے حکم کے مطابق عذاب میں اضافہ صرف ایک گنا ہی ہو سکتاہے ۔ (انعام 6/160، یونس 10/27، النمل 27/90، قصاص 28/84، مؤمن 40/40، النباء 78/26)۔ درج ذیل آیات میں بھی عذاب میں ایک گنا اضافہ کا ہی ذکر ہے: اعراف 7/38، فرقان 25/68-69، احزاب 33/30، 68، ص 38/61،
زمر 39/73-74، التغابن 64/9۔
روم 30/15، شوریٰ 42/22، رحمن 55/46-52۔
عربی زبان میں ہر وہ چیز جو بلندی اور عروج پر ہو "کَعْبٌ” کہتےہیں۔ ایک باوقار اور کامیاب شخص کو "اعلیٰ کعب والا (رجلٌ عَالِي الكَعْب)” کہا جاتا ہے (لسان العرب) ۔ اس آیت میں لفظ "کواعب” (كَوَاعِبَ) "کائبون” کی جمع ہے جس کا مطلب ہے "اونچائی والا”۔ حوروں سے جس چیز کی توقع ہے وہ معیاری خدمت ہے۔ یہ اس حقیقت کا بھی تقاضا ہے کہ وہ ان افراد پر نظریں لگائے رکھیں گے جو ان کی خدمت کرتے ہیں (ص 38/52، رحمن 55/56)۔ لیکن روایت میں، متعلقہ آیات کے درمیان جامعیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا، حوریں ایسی ، یعنی اس قسم کی تھیں جو انسانوں اور جنوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی (الواقعہ 56/35-37، رحمن 55/56) کو لڑکیاں سمجھا گیا ہے اور لفظ ” كواعب (كَوَاعِبَ)” کے معنی "بھری چھاتیوں والیاں” کے دیئے گئے ہیں۔
———————————————————————–
وَكَأْسًا دِهَاقًا {34}
34. اور (وہاں) بھرے ہوئے جام ہوں گے۔
لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا {35}
35. وہ وہاں نہ خالی باتیں سنیں گے اور نہ ہی کوئی جھوٹ۔
جَزَاء مِّن رَّبِّكَ عَطَاء حِسَابًا {36}
36. یہ تمہارے رب کی طرف سے (تمہارے اعمال کے حساب سے ) اجر کے طور پر (دیے جائیں) گے۔
رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرحْمَنِ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا{37}
37. آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کے رب کی طرف سے، جس کی نیکی لامحدود ہے (دیا جانے والا انعام) … جس انعام کے بارے میں کسی کے پاس کچھ کہنا باقی نہیں رہے گا۔
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا {38}
38. جس دن روحیں اور فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہوں گے (قیامت کے دن) رحمٰن جس کو اجازت دے اس کے سوا کوئی بات نہیں کر سکے گا ۔ اور جس کو اجازت دی جائے وہ صرف سچ ہی بولے گا۔
ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا {39}
—————————————————————————-
الصفٰت 37/45-46، الزخرُف 43/71، الواقعہ 56/18، الدھر 76/15، الغاشیہ 88/14۔
مریم 19/62، الواقعہ 56/25۔
انعام 6/160۔
الکہف 18/88، سجدہ 32/17، الدھر 76/22۔
دخان 44/7۔
اعراف 7/43-44، البیِّنہ 98/7-8۔
یہاں روح سے مراد انسان اور جن ہیں (انعام 6/128) فرشتے اللہ کی طرف سے مقرر کیے گئے مومن جن ہیں۔ (کہف 18/50)۔ اس آیت کے مطابق قیامت / قبر سےجاگ اٹھنے والے دن وہ بھی صف بستہ ہوں گے (الفجر 89/22)۔ یہاں فرشتوں کا الگ ذکر اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ بھی ایک ذمہ دار مخلوق ہیں (نساء 4/172-173)۔
ہُود 11/105۔
لفظ "صَوَاب” کا مطلب ” صحیح یا سچ” ہےاس کے علاوہ "کسی شخص کی صحیح /سچ کے طور پر قبول کی جانے والی چیز ” کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔(مفردات)۔ اس آیت میں لفظ کو صحیح کے معنی دینا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض کافر سزا سے بچنے کے لیے آخرت میں بھی جھوٹ بولیں گے (انعام 6/27-28)۔
——————————————————————————
39. یہ ایک ایسا دن ہے جو مکمل طور پر حقیقی ہے۔ جو کرنا چاہیے ویسا ہی کرنے والا شخص اس راستے پر چلتا ہے جو اسے اس کے رب کی طرف لے جاتا ہے ۔
إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا {40}
40. ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے خبردار کیا تھا ۔ اس دن ہر شخص اپنے اپنے ہاتھوں سے کئے گئے کاموں کو دیکھے گا ا ور کافر کہے گا: ہائے! کاش میں مٹی ہوتا!
——————————————————————————
فعل (شاء) جس کا مطلب ہے "کچھ کرنا”۔ (شيء) مصدر سے ماخوذ ہے ۔ اللہ کا کرنا اس چیز کو پیدا کرنا ہے اور انسان کا کرنا اس چیز کے لیے ضروری کوشش کرناہے (مفردات) ۔ اللہ ہر چیز کو ایک وزن/ پیما ئش کے مطابق پیدا کرتا ہے (قمر 54/49، رعد 13/8)۔ اس نے امتحان سے متعلق چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا: اچھا اور برا (انبیاء 21/35)۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہر کوئی سیدھی راہ پر ہو (النساء 4/26) لیکن وہ صرف صحیح کام کرنے والوں کو ہی سیدھےراستے پر مانتا ہے۔ (نور 24/46)۔کوئی شخص جو بھی کچھ کرے اس کو اس چیز کے صحیح یا غلط ہونے کو اسے الہام کرتا ہے۔ اس لئے جو کوئی صحیح کام کرتا ہےاس کا اندر مطمئن ہوتا ہے اور جو کوئی غلط کام کرتا ہے اسکا نادر بے سکون ہوتا ہے ۔ (شمس 91/7-10)۔ اس کے مطابق، اگر فعل (شاء) کا موضوع اللہ ہے، تو اس کا مطلب ہے "اس نے جو ضروری تھا وہ کیا یا تخلیق کیا "، اور اگر یہ انسان ہے، تو اس کا مطلب ہے "اس نے وہ کیا جو ضروری تھا”۔ اگر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی آزادی نہ دی ہوتی تو کوئی بھی غلط کام نہ کر سکتا تھا اور امتحان نام کی کوئی چیز نہ ہوتی (النحل 16/93)۔ جو لوگ اسلام میں تقدیر کی غلط فہمی کو ایمان کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں انہوں نے بہت بڑی تحریف کرتے ہوئے فعل (شاء) کے معنی ارادے اور مرضی یعنی چاہنے اور خواہش کرنے کے دیے ہیں۔ اس کو انہوں نے بہت سی آیات کے مفہوم کوتفسیروں اور یہاں تک کہ لغات میں رکھ کر بگاڑ دیا ہے۔ دیکھیں:
مزمل 73/19، الدھر 76/29۔
المعا رج 70/6-7۔
الکہف 18/49، القیامۃ 75/13، الزلزال 99/6-8۔