دعا
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ
وَقَالَ رَبُّكُـمْ ٱدْعُونِيۤ أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
“تمہارے رب نے فرمایا، ‘مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔’ لیکن وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں، ضرور ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔” (غافر 40:60)
“اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا کرو کہ (تمہاری دعا) قبول ہوگی۔ اور جان لو کہ اللہ اس دعا کو قبول نہیں کرتا جو غافل دل سے کی گئی ہو۔” (جامع الترمذی، کتاب الدعوات، 66)
عزیز نوجوانو!
لفظ ‘دعا’ کا ترجمہ ‘التجا’ ہے، اور اس کا ماخذ وہ جڑ ہے جس کا مطلب ‘پکارنا’ یا ‘آواز دینا’ ہے۔ قرآن واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے دعا نہیں کرنی چاہیے۔ ہم سورہ الفاتحہ پڑھتے وقت بار بار یہ دہراتے ہیں: “ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔”
اللہ اپنے بندے کی دعا کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سورہ الفرقان 25:77 میں اس بات پر زور دیا گیا ہے:
“میرا رب تمہاری پروا کیوں کرے گا، اگر تم اس سے دعا نہ کرو؟”
دعا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ دعا دل سے اللہ کے سامنے اپنا حال بیان کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ اللہ سے اپنے مسائل، خوف، اور غم کی باتیں کرنے کا موقع ہے۔ دعا وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی کمزوری کو سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے، لیکن یہ وہ وقت بھی ہے جب آپ اللہ تعالیٰ کی طاقت کا احساس کرتے ہیں – جو رحمن اور رحیم ہے – اور وہ آپ کو ہر چیز پر غالب آنے کی طاقت دیتا ہے۔ جب مشکلات آپ کو گھیر لیں، تو آپ کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ایک ایسی روشنی ہے جس سے آپ کو اطمینان ملے اور آپ کی مشکلات حل ہو سکیں۔ دعا واقعی وہ امید ہے، جو یہ کہتی ہے: “چاہے تمہاری مشکلات کتنی ہی بڑی ہوں، اللہ تمہاری مشکلات سے بڑا ہے۔” دعا یہ بھی کہتی ہے: “پریشان نہ ہو، اللہ کی پناہ میں آ جاؤ، وہ تمہیں حل دکھائے گا۔” یہ حل تلاش کرنے کا پہلا قدم ہے اور یہ شعور ہے کہ تمام حل اللہ کی مرضی، اجازت، اور کرم سے ہی ممکن ہیں۔
ہماری تقریر کے آغاز میں تلاوت کی گئی آیت میں، اللہ تعالیٰ اس شعور کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ وہ دعا کو اپنی عبادت کا ایک اہم حصہ سمجھتا ہے۔ اس آیت میں دعا کو اللہ کی بندگی کے اعتراف اور تکبر سے بچنے کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ وہ حدیث جس میں کہا گیا ہے: “دعا عبادت کا مغز ہے” (جامع الترمذی، کتاب الدعوات، 1)، بھی اسی خیال کی تائید کرتی ہے۔
عزیز نوجوانو!
قرآن کی کئی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے دعا کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً، سورہ البقرہ کی آیات 201 اور 202 میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو دعا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک دنیا میں صرف بھلائی اور دولت کی طلب کرتا ہے، جب کہ دوسرا دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی کے لیے دعا کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ جو صرف دنیاوی چیزوں کی خواہش کرتے ہیں، انہیں آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ملے گی۔ اسی لیے ہمیں دعا کرتے وقت اللہ سے ایسی چیزوں کی طلب کرنی چاہیے جو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہتر ہوں۔
عزیز نوجوانو!
سورہ البقرہ میں وہ دعا جو دنیا اور آخرت کی بھلائی کی درخواست شامل کرتی ہے، وہ “ربنا آتنا” ہے، جسے ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ اسی طرح “ربنا اغفرلی” کی دعا، جو “ربنا آتنا” کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، سورہ ابراہیم کی آیت 41 میں ہے۔ اس کا مطلب ہے: “میرے رب، مجھے معاف کر دے، اور میرے والدین اور تمام مومنین کو اس دن معاف کر دے جب ہر ایک کا حساب لیا جائے گا۔” ان مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں سکھاتا ہے کہ دعا کیسے کرنی چاہیے۔ قرآن میں دعا کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ ہمیں ان دعاؤں کو ان کے معانی کے ساتھ سیکھنا چاہیے، اور اپنے حالات کے مطابق اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔
عزیز نوجوانو!
جس حدیث کو ہم نے ابتدا میں تلاوت کیا، اس میں کہا گیا: “اللہ سے دعا کرو، اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول ہوگی۔ اور جان لو کہ اللہ اس دعا کو قبول نہیں کرتا جو غافل دل سے کی گئی ہو۔” اس حدیث میں دعا کرتے وقت غور و فکر کرنے کی باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ مختلف احادیث میں بھی اسی طرح کی تاکید کی گئی ہے، جیسے کہ: “سب سے زیادہ قریب اللہ کا بندہ اپنے رب کے اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کر رہا ہو، لہٰذا اس میں دعا کرو۔” (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، 482) اس حدیث کے مطابق، نماز میں سجدے کے دوران اپنی زبان میں دعا کرنا بھی مناسب اور فائدہ مند ہوگا۔
ہمیں اس بات میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری دعا قبول ہوگی۔ تاہم، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم صرف دعا کے ذریعے کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمیں دعا اس وقت کرنی چاہیے جب ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی ہو اور شعوری طور پر دعا کر رہے ہوں۔ ہمیں کسی بھی صورت میں بے صبری نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ ہماری دعا کا جواب اس وقت اور اس طریقے سے دے گا جو ہمارے لیے سب سے زیادہ مناسب اور فائدہ مند ہوگا۔
جو مخصوص دعائیں (ہم سمجھتے ہیں کہ) قبول نہیں ہوئیں، ان کے بارے میں ہمیں اس بات پر یقین برقرار رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے بہتر ہے، کیونکہ، “اس صورت میں، اللہ ہی کی حفاظت ہے، جو حق ہے۔ وہ بہترین جزا دینے والا اور انجام کے لحاظ سے بہترین ہے۔” (الکہف 18:44)
اس طرح، ہمیں امید ہے کہ ہم نجات پانے والوں میں شامل ہوں گے۔