مفہوم کے لحاظ سے قرآن کی تفصیل
اللہ تعالٰی قرآن مجید کے بارے میں فرماتے ہیں.
”الر یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔ اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو ، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان ( زندگی ) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا ۔ اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔” (سورۃ ھودآیت 3-1(
اس کے مطابق آیات کریمہ دو اقسام میں تقسیم کی گئی ہیں ، ایک محکم اور دوسری وہ آیات جو محکم کو بیان کرتی ہیں ۔ قرآن میں غور وفکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر آیت ایک مضمون کے لئے محکم اور بہت سے مضامین کے لئے متشابہ یعنی ایک دوسرے سے معنی کے اعتبار سے ملنے والی اور تشریح کرنے والی ہوتی ہے۔
اللہ کی کئی گئی تشریحات، صرف جانے والے لوگوں پر مشتمل گروہ یعنی علماء سمجھ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے یوں فرمایا ہے
ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے ( اس حال میں کہ ) قرآن عربی زبان میں ہے اس قوم کے لئے جو جانتی ہے۔ (سورۃ فصلات آیت 3)
لفظ قرآن قرأ قبل کا مصدر جو کہ قرء اور قرء ہیں اِن سے اخذ کیا گیا ہے ، جس کا مطلب مجموعہ ہے ۔
مصدر کی طرح استعمال ہونے والا مقروع سالمیت اور جھرمٹ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، وضاحت میں لفظ قرآن آیات کا جھرمٹ / مجموعہ کے معنی میں بھی آسکتا ہے۔ قرآن چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے اس میں موجود مماثلات عربی زبان کے مطابق ہیں اور اُن کا مطلب سمجھنا اسی زبان کی مدد سے ہو سکتا ہے ۔
جاننے والے لوگوں کا گروہ، قرآن کو اور عربی زبان کو جاننے والے لوگوں اور اس مضمون میں ماہر لوگوں پر مشتمل ہے یہ کام صرف علم والے اور مضبوط موقف والی ایک جماعت کر سکتی ہے ۔ کیونکہ کتاب اللہ کی اصل تشریح صرف اللہ کی ذات جانتی ہے ۔ مضبوط علم والے یوں کہا کرتے ہیں۔
وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔ (سورۃ آل عمران آیت 7)
اِس راستے سے حاصل ہونے والے علم کو حکمت کیا جاتا ہے ۔ تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو حکمت سکھائی ہے ۔ نبی وہ شخص ہوتا ہے ، جس کا مقام و مرتبہ اللہ کی طرف سے بڑھا ہوا ہو اور اس کو کتاب و حکمت سے نواز گیا ہے ہو۔
اللہ سورۃ انعام کی آیت (83) اور اس کے تسلسل میں نوح علیہ سلام سے عیسیء علیہ السلام تک ۱۸ انبیاء کے اسماء مبارکہ ذکر کئے ہیں اور یوں فرمایا:
اور یہ ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں ۔ بےشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔ (سورہ انعام آیت (83) کا ذکر کیا ہے : ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و پیش انبیاء جن کا ذکر کیا جاتا ہے اُن میں سے ہر ایک اس آیت میں آئے گئے 18 انبیاء کے یا تو آباء، یا بھائی یا ان کی اولاد میں سے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے مزید فرمایا :
یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کر دیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔ سورۃ انعام آیت (89)
ہر نبی رسول بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کو وہ عطا کی گئی چیزوں کو آگے پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ سلام کعبہ کی دیوار کو بناتے ہوئے یوں دعا کی تھی :
اے ہمارے رب !ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔(سورۃ بقرہ آیت 129 )
ابراھیم علیہ سلام کی دعا کا قبول ہونا ہم اس آیت میں دیکھتے ہیں:
جس طرح ہم نے تم میں تمہیں میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بے علم تھے۔ (سورۃ بقرہ آیت 151 )
رسول چونکہ خود سے کی چیز کا اضافہ نہیں کر سکتا اِس لیے رسول کے حکمت سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ حکمت تک پہنچنے کا رستہ قرآن میں موجود ہو ۔ ہم نے بھی اپنی تحقیقات کے ذریعے سے یہ راستہ ڈھونڈنے اور اللہ تعالیٰ نے جو حکمت قرآن میں رکھی ہے اس تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف قرآن پہنچانے کے لئے بھیجے گئے اور رسول اِس کو سکھانے والے استاد ہیں۔
جبرائیل علیہ سلام اس طرح اُن کی طرف بھیجے گئے رسول اور استاد ہیں ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس راستے کے ذریعہ قرآن اور اُس سے حکمت سیکھی ۔ ان کی اُن کے تمام الفاظ اور اعمال اس حکمت کا نتیجہ ہیں ۔ان میں اور قرآن میں مکمل اتحاد ہے ۔ اگر ہمارے علماء حکمت کی طرف کے راستے پر چلیں گے تو آسانی کے ساتھ اس اتحاد کو دیکھ لیں گے اور تمام مشکلات پر اِس راستے کے ساتھ قابو پالیں گے ۔
اس لیئے یہ لفظی ترجمہ ، حکمت تک پہنچنے کے طریقہ سے تیار کیا گیا ہے۔ وہ غلطیاں جو لغات تک جا پہنچ تھیں اوروہ یوں استعارات جو کہ حقیقت
کا روپ اختیار کر چکے تھے ، اس راستہ کے ذریعہ سے منظر عام پر آئے اور فوٹ نوٹ اِسی طرح لکھے گئے۔
یہ کام دو گروہوں کے ذریعہ کیا گیا۔ پہلا گروہ ہماری فاؤنڈیشن کے بہت سارےعلماء پر مشتمل ہے۔ دوسرا گروہ ، عدام کی زبان کو اچھا جانے والوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ہماری مجالس کا حصہ بننے والے تمام لوگوں میںیہ با محاورہ ترجمہ پر مشتمل کتابچہ تقسیم کیا گیا اور اُن کے تعاون وصول کئے گئے۔ ہم جتنے مرضی اچھے گروہ بنا ئیں ہماری غلطیاں ہونا ناگزیر ہے۔ علماء سے ہماری درخواست یہ ہے کہ وہ بھی اِس طرح گروہ بنائیں اور ہر میدان میں قرآن کی تفسیر تک پہنچ کر علم اور تہذیب کی ترقی کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔
ہمیں ہماری غلطیوں کا پتہ لگانے والوں سے یہ امید ہے کہ وہ انہیں شائع کریں گے اور کی نہ کی طرح ہم تک پہنچائیں گے۔
کام ہماری طرف سے کا میابی اللہ کی طرف سے ہے ۔