131-سورۃ الفلق
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جس کی بھلائی لامتناہی ہے اور جس کا فضل بہت زیادہ ہے۔
قُلۡ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلۡفَلَقِلا(1)
١۔کہو:” میں پناہ مانگتا ہوں اس کی جو تقسیم کرکے پیدا کرتا ہے”!
مِن شَرِّ مَا خَلَقَلا(2)
٢-اس کے شر سے جو کچھ اس نے پیدا کیا۔
وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَلا(3)
٣۔رات کے شر سےجب وہ گہری ہو جائے۔
وَمِن شَرِّ ٱلنَّفَّـٰثَٰتِ فِي ٱلۡعُقَدِلا(4)
٤۔رشتوں میں فساد برپا کرنے والوں کے شر سے۔
1۔یہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور 5 آیات ہیں۔
2۔ فلق کا مطلب ہے ٹکرےکرنا، تقسیم کرنا یا تقسیم ہو جانے والی چیز۔ تقسیم اللہ کا پیدا کرنے کا اصول ہے۔ حیاتیات میں اسے MitosisاورMeiosis کہا جاتا ہے۔ ایک آیت یوں ہے:”اللہ ہی ہے جو دانے اور بیچ تقسیم کرتاہے۔ وہ مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے۔ اس کے باوجود کیوں غلطی پر جا رہے ہیں؟”( الانعام 95/6)
3- غاسق کا مطلب ہے سردی (لسان العرب)۔ اس سے مرادرات کا سب سے سرد اور طویل ترین حصہ ہے۔ اس وقت سورج کی کرنوں کا کچھ اثر باقی نہ رہے، عشاء کا وقت گزر چکا ہو(الاسراء78/17)اور جانداروں کے آرام کا وقت آگیا ہو۔ "جب گہرا ہو جاتا ہے”وقت کے آغاز کو دکھاتا ہے۔ اس وقت کے بعد کسی کے پاس بغیر اجازت کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ متعلقہ آیت یوں ہے:”مومنو!آپ کے اختیار میں جو قیدی ہوں اور آپ کے وہ بچےجو ابھی بلوغث کو نہیں پہنچےتین اوقات، صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر جب آپ نے کپڑےاتارے ہوں اور عشاء کی نماز کے بعد جب آپ کےپاس آئیں تو اجازت لے کر آئیں۔ یہ تین اوقات ہیں جب آپ کھلے رہ سکتےہیں۔ ان اوقات کے علاوہ آپ ایک دوسرے کے پاس آجا سکتے ہیں۔اس میں آپ پر یا ان پر کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تم پر اس طرح اپنی آیات واضع کرتا ہے۔ اللہ ہی جانتا اور صحیح فیصلہ کرتا ہے۔”(نور58/24)ان آیات کی مناسبت سے ہمارے نبی کو عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد بات کرناپسند نہیں تھا۔
(بخاری، اذان، القراطوفی الفکر شرح104؛ مسلم،المساجد،موادی الصلاۃ (647) – 235۔
4۔ لفظ تعلقات کو ہم نے عقد (لعقدۃ) کے معنی سے تعبیرکیاہے جس کی جمع عقد(العقد)ہے ، سے مراد ہر قسم کے تعلقات ہیں جو مضبوطی سے قائم کیے گئے ہوں۔ رشتوں کو جوڑنے والے نکاح کے بندھن کو "عقدۃ انکاح”کہا جاتا ہے، فروخت کے معاہدے کو”عقدۃ البیع” کہا جاتا ہے اور منافع بخش کاروباری تعلقات کو ” العقدۃ العین” کہا جاتا ہے۔
5۔ النَّفَّاثات=النفاثات کے لیے النفوسُ النَّفَّاثات کے معنی دیئے گیے ہیں۔ نفث کسی چیز کا منہ سے نکلنے کو کہتے ہیں (میقاسُ الغت)۔ لوگوں کے درمیان تعلقات کچھ الفاظ یا جملوں سے خراب ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ عام طور پر جھوٹ بولتے ہیں۔ چونکہانہیں پہچاننا مشکل ہوتا ہے اس لیے ان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنا ضروری ہے۔ اس موضوع سے متعلق چند آیات درج ذیل ہیں:” جھٹلانے والوں کی طرف توجہ نہ کریں! وہ تو چاہتے ہیں کہ آپ ان کی چاپلوسی کریں، اور وہ آپ کی چاپلوسی کرتے رہیں۔ بہت زیادہ قسمیں کھانے والے ذلیل لوگ میں سے کسی طرف کی بھی دھیان نہ دیں۔ طعنے دینے والے، لگائی بجھائی کرنے والے، نیکیوں میں رکاوٹ ڈالنے والوں، ظلم و زیادتی کرنے والا، گنا ہ کے شوقین، بے ادب اور اس سے بھی زیادہ بگڑے ہوئے لوگوں کی طرف توجہ نہ کرو!(قلم13-8/68)۔
رشتوں میں خرابی پیدا کرنے والے سب سے خطرناک لوگ وہ ہوتے ہیں جو صحیح چیز کو غلط جگہ پر استعمال کرکے مختلف قسم کا معنیٰ و مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے ترکی زبان میں”بُو یُو لہ مہ” اور عربی میں ‘سحر’ کہتے ہیں۔ جادو کو عربی میں سحر کہتے ہیں۔ جادو کسی چیز کو اس سے مختلف دکھایا جانا، دھوکہ، خلفشار اور فریب ہے(لیسان العرب)۔ موسیٰ علیہ السلام کے خلاف جو کچھ کیا گیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے ” عظیم جادو” قرار دیا وہ بھی ایسا ہی ایک فسانہ تھا۔ متعلقہ آیات درج ذیل ہیں:
"ان (پیغمبروں) کے بعد ہم نے موسیٰ کو فرعون اور اس کےمعزز لوگوں کی طرف اپنی نشانیوں کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا تھا۔ لیکن انہوں نے ان نشانیوں کے خلاف غلط کیا پھر دیکھو ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا؟موسیٰ نے کہا:اے فرعون! میں مخلوقات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ایک رسول ہوں۔ میرا فرض اللہ کے بارے میں صرف سچ بتانا ہےا ور آپکےلیے آپکے رب (مالک) کی طرف سے ایک نشانی بھی لایا ہوں ۔ لہذا بنی اسرائیل کو میرے ساتھ آنے دو۔
فرعون نے کہا: اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو دکھاؤ،” اگر تم سچے ہو”۔ موسیٰ نے اپنا عصازمین پر گرادیاوہ فوراً ہی واضع طور پر سانپ بن گیا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ نکالا اور دیکھنے والوں کے لئے بالکل سفید ہو گیا۔ فرعون کی قوم کے معزز لوگوں نے کہا کہ یہ جادوگر ہے جو واقعی اپنے کام کو جانتا ہے!(فرعون نے اپنے ارد گرد والوں سے کہا) یہ تو تمہیں تمارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے سو تم مشورہ دیتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ "اسے اور اس کے بھائی کو اپنے پاس نظر بند رکھو اور شہروں میں آدمی بھیج دو تاکہ اُن تمام جادوگروں کو جو اپنے کام میں ماہر ہیں تمہارے پاس لے آئیں”۔ جادوگر فرعون کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر ہم فاتح ہوتے تو ہمیں انعام تو ضرور ملے گا، ایساہی ہے نا؟ "ہاں بالکل” اس نے کہا، ” اس کے علاوہ، آ پ لوگ میرے قریبی لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ "انہوں نے کہا:موسیٰ!کیا آپ اسے پھینکیں گے ، یا یم پھینک دیں؟ موسیٰ نے کہا "تم پھینکو!” جب انہوں نے اپنی چیزیں پھینکیں، تو لوگوں کی آنکھیںسحر زدہ کرتے ہوئے انہیں خوف زدہ کردیا اورایک طرح کا بڑا جادو کرد کھلایا۔ ہم نے موسیٰ پر وحی نازل کی کہ :”اب تم بھی اپنا عصا پھینک دو!”
جیسے ہی عصا پھنکااس نے آن کی آن میں لوگوں کو فریب دینے کے لیے بنائے گے جھوٹے طلسم کو نگل لیا۔ اور اس طرح حق ظاہر ہو گیااور جو کچھ انہوں نے بتایا تھا ، اسکا غیر حقیقی ہونا واضع ہوگیا”۔(اعراف120-103/7)/
ان آیا ت میں اور بہت سی دوسری آیات میں واضح طورپر بیان کیا گیا ہے کہ جادوایک غیر حقیقی شعور کو بنانے کا طریقہ ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری والدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر مبنی ایک روایات میں کہ ایک یہودی نے ہمارے نبیﷺ ٌپر جادو کیا اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے یہ خیال آیا کہ اس نے ایسا کام کیا جو اس نے کیا ہی نہیں۔(بخاری، طب،47،49،50،جزیہ14، ادب 56، مسلم، سیلم2189-43)۔ زید بن ارقم سے روایات کی جاتی ہے کہ ” آپ جادو کی وجہ سے کئی دن بیمار رہے۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے بتایا کہ :فلاں یہودی نےگرہ باندھ کر کنویں میں پھینک دی ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کو وہاں بھیجا جنہوں نے کنویں سے کرہ نکال کر کھول دی اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب اس نے اسے کھولا تو ہمارے نبیﷺ نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ بندھن سے آزاد ہو گئے ہوں(نسائی، تحریم20،(113-112,7)۔
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ لا(5)
٥-اور جب وہ حسد کرتا ہے تو (میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں )حسد کرنے والے کے شر سے!
ان روایات کو درست ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"ہم اچھی طرح جانتے ہےکہ جب وہ کان لگا کر تمھاری بات کو سنتے ہیں اور جب وہ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں تو اصل میں کیا سن رہے ہوتے ہیں۔ ان بے انصاب لوگوں نے کہا:تم جس کی پیروی کر رہے ہو وہ ایک سحر زدہ آدمی کے سواکچھ نہیں ہے”۔ دیکھو انہوں نے تمہیں کس بات سے تشبیہ دی اور بھٹک گئے اب انہیں نکلنے کا راستہ نہیں ملےگا۔ (بنی اسرائیل47-48/17)
اکثرتفاسیر و تراجم میں سورۃ الفلق کی چوتھی آیت میں "جادوگرعورتوں کے شر سے جو گرہوں پر پھونک مارتی اور ان پر تھوکتی ہیں” کے طور پر ترجمہ کرتے ہوئے جادو کے حقیقت میں موجود ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس طرح کی باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو قرآن سے متصادم کرکے گمراہ کیا جائے۔